مقولہ ہے کہ

با ادب بانصیب بے ادب بد نصیب

جوادب کرنے والا ہوتا ہے وہ بے بہا نعمتیں پاتا ہے اور پھر جب بات سرکار ﷺ کے ادب و تعظیم کی ہو تو اس کا باقاعدہ اہتمام ہونا چاہیے کہ سرکار کی تعظیم و ادب ایمان کا لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں چنانچہ اس بات کی اہمیت کا اندازه اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب العزت ہمیں قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنےمحبوب کے متعلق آداب سکھا رہا ہے۔

1۔حضور کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھیں: جب بھی حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہو تو روضہ رسول پر آوازیں بلند نہ کریں بلکہ شہرنبی کا ادب کرتے ہوئے مدینۃالرسول میں بھی اپنی آواز کو پست رکھیں اور حضور کا ادب وصالِ ظاہری کے بعد بھی ویسا ہی کیا جائےگا جیسا کہ حیات ِ طیبہ میں لازم تھا اور یہ ادب قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے اور جب حضور کی حدیث مبارکہ بیان کی جائے تب بھی ادب کا لحاظ رکھا جائے اور خاموش رہ کر سنا جائے۔ جیسا کہ رب کریم سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 میں حکم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے۔

2۔حضور کی جناب میں ادب کے الفاظ استعمال کریں: رب کریم سورہ بقرہ کی آیت 104میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر فرمائیں۔راعنا کا لفظ یہودیوں کی لغت میں بے ادبی کے لیے استعمال ہوتا تھا تو صحابہ کرام کو اس پر بہت دکھ ہوتا تھا کیونکہ اگر بارگا ہ نبوی میں کوئی بات سمجھ نہ آتی تو حضور ﷺ کو راعنا کہتے تھے، اس پر رب کریم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ راعنا کے بجائے لفظ ”انظرنا “استعمال کیا جائے۔

3۔حضورکو اچھے ناموں سے پکاریں: رب کریم پارہ18 سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں ارشاد فر ماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

اس کی تفسیرمیں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نورالعرفان میں فرماتے ہیں کہ حضور کو ایسے القاب و آوازسے نہ پکا رو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو انہیں بھیا،چچاکہہ کر نہ پکارو بلکہ انہیں یا رسول اللہ وغیرہ کہہ کر پکارا جائے۔ آپ کے نام مبارک سے بھی نہ پکارا جائے۔

4۔مواجہ شریف کو بھی پیٹھ کر کے رخصت نہ ہوا جائے: حضور ﷺ کی بارگاہ کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ مواجہ پر حاضر ہو کر عرض کیا جائے اور وہیں پر رخصت کی اجازت طلب کرے اور وقت رخصت پیٹھ پھیر کر چلنے کے بجائے الٹے قدم چلتے چلتے رخصت ہوا جائے۔

5۔مواجہ و مسجد نبوی میں چلا کر بات نہ کی جائے:اس بات کا اہتمام ہمیں بالخصوص مسجد نبوی اور مواجہ کے سامنے کرنا چاہیے کہ وہاں چلا چلا کر آپس میں کلام نہ کیا جائے مگر افسوس!فی زمانہ اس کا کوئی لحاظ و اہتمام نہیں رکھا جاتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں آداب رسالت کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہےکہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم وادب اور دربار میں حاضری کے اصول و آداب خود بناتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ کے دربار کا عالم ہی نرالا ہے۔ اس کی تعظیم اور بارگاہ میں حاضری کے ادب واحترام کے اصول و قوانین اس نے خود نہیں بنائے۔بلکہ ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب کریم نے نازل فرمائےہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں، ظا ہری حیات میں بھی اور ظاہری وصال کے بعد بھی۔قرآنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے با قاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ہیں۔جن میں اللہ پاک نےمتعدد احکام دیئے ہیں۔

1)حضور اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اورپس و پیش سے کام نہ لو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ(الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

2-نبی کریم ﷺ کو پکارنے اور مخاطب کرنے کا انداز عام لوگوں جیسا نہیں ہونا چا ہیےاس طرح مخاطب کرنا چاہیے جس میں ادب و احترام ملحوظ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

علمائےکرام تو اس بات سے بھی منع فرماتے ہیں کہ آقا ﷺ کو” یا محمد“ بھی نہ کہیں بلکہ خوبصورت القابات کے ساتھ جیسے ” یا رسول الله، یا حبیب الله“وغیرہ کہہ کر پکاریں۔

3-پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کی جائے، چاہے نبی پاک ﷺ تنہا ہوں یا مجلس میں تشریف فرما ہوں۔یہی صورت حال اس وقت روضہ رسول کی زیارت و حاضری کے وقت بھی ہونی چاہیے۔چنا نچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

4)جس کلمے میں بے ادبی کا شائبہ ہو یا ایسے الفاظ جو بولنے میں ایک جیسے اور مطالب میں الگ ہوں ایسے الفاظ سے گریز کیا جائے جیسے مسلمان عرض کرتے تھے:”راعنا یعنی ہماری رعایت فرمائے“ یہود زبان دبا کر اسی لفظ کو ”راعینا یعنی ہمارے چروا ہے“ کہتے جو یقیناً ہمارے نبی کریم ﷺکی شان کے خلاف تھا، اس لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)ترجمہ: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

5) بعض لوگوں نے عیدِ اضحیٰ کے دن حضور سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔اس بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

ان آیات میں دیئے گئے احکام سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ادب نہ کرنا اللہ کے نزدیک سخت ناپسند ہے۔اللہ پاک اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمارے دلوں اور اعمال وکردار میں نبی کریم ﷺ کے ادب اور محبت کو راسخ کر دے۔ آمین


اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت سارے اوصاف سے مزین فرما کر دنیا پر دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا جن کی کوئی انتہا نہیں۔ اعلی حضرت رحمۃُ الله علیہ فرماتے :

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں تری

حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

اور جس شخصیت کو اللہ پاک نے دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا اس مبارک ہستی اور اس کی بارگاہ کے آداب بھی امتیوں کو قراٰنِ کریم کے ذریعہ سکھائے۔ مثلاً مجلس میں بیٹھنے کے آداب، بات چیت کے آداب، ندا( پکارنے) کے طریقے وغیرہ جن میں سے 5 آداب بارگاہِ نبوی قراٰنِ کریم کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:۔

(2،1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)تفسیر : اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آہستہ اور پست آواز میں بات کرنے والوں کا مقام و مرتبہ اور اجرو ثواب اس آیت مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیے : اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3) تفسیر: اس کے شانِ نزول میں ہے : جب یہ آیت(لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ) نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بہت ہی پست آواز سے عرض و معروض کرتے۔

اس آیت سے ہونے والی معلومات: (1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ (2)…اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔(3)… حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہما کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ پاک نے ان کی بخشش کا اعلان فرما دیا ہے ۔(صراط الجنان، 9/405)

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر کے باہر سے پکارنے والوں کو اللہ پاک نے بے عقل فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45)

ان آیاتِ مبارکہ سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب معلوم ہوئے اور یہ آداب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفاتِ ظاہری سے لے کر تا قیامت یہی آداب باقی ہیں۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوا چھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب رب العلمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک کی بارگاہ میں پیارے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند و بالا ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب خود رب ذوالجلال نے ارشاد فرمائے ہیں:۔

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) وضاحت: اس آیت الله پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہیں۔

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)وضاحت: اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں: (1) کہ تمہاری آواز حضور کی آواز سے بلند نہ ہو (2) پکارنے میں ایسے نہ پکاروں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ بلکہ تعظیم و توصیف کے کلمات اور عظمت والے القابات سے پکاروں۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) وضاحت: اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء اکرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور بے ادبی (کفر) ہونے کی طرف اشارہ ہیں۔

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) وضاحت: اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر اجازت مصطفی کی بارگاہ میں جانا ہے ادبی ہے۔

(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) وضاحت: تفسیرِ صراط الجنان: اس آیت میں بھی مصطفی جانِ رحمت کی بارگاہ گا ادب بیان کیا گیا ہے۔


انسان کو ہر زمانے میں اپنی دینی یاد نیوی ضرورت کو پورا کرنے کے تحت کسی ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو اس کے مقصد کو پورا کر سکے۔ ایک باشعور شخص جب کسی کے پاس مقصد کے حصول کے لیے جائے گا تو وہاں کے اصول و ضوابط اور لوازمات کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح ملازم جب اپنے سے سیٹھ کے پاس، شاگرد اپنے استاد کے پاس، مرید اپنے پیر کے پاس جاتا تو ہے تو ان کے بارگاہ کا ادب کرتا ہے۔ اس طرح بارگاہِ رسالت میں حاضری کے بھی آداب ہیں جن کو رب العالمین قراٰنِ کریم میں بیان فرماتا ہے۔

(1) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

(2) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) وہ لوگ جو حضور کو پکارتے تھے اس حال میں کہ نبی حُجرے میں تھے، وہ عقل نہیں رکھتے، تو لوگوں کو تلقین کی گئی کہ جب وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوں اور حضور اگر حُجرے میں ہوں تو باہر سے آوازیں نہ دو یہاں تک حضور خود کو حُجرے سے نکل کر آئیں اور پھر تم ان سے اپنی عرض پیش کرو۔ فرمایا: جو ایسا کرتے ہیں یعنی باہر سے آوازیں دیتے ہیں وہ بے عقل ہیں۔

(4) اللہ نے فرمایا: تو حضور سے راعنا نہ کہو بلکہ انظرنا کہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں حاضری کے وقت ایسے الفاظ نہ بولے جائیں جن میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی خدشہ ہو، اس کو لانا ممنوع ہے اور ایسے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جن کے دومعنی ہو اچھے اور برے دونوں۔ اور غور سے ہر بات کو سننا چاہیے۔ یعنی جب حضور کی بارگاہ میں حاضری ہو تو توجہ سے بیٹھو ۔

(5) اے ایمان والو رسول اللہ کے پکارنے کو ایسا معمولی نہ سمجھو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے یعنی جب حضور پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب ہے اور حضور کو نام لے کر نہ پکارو ۔ جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لیتے ہو، بلکہ کہو یا رسول الله ،یا نبی الله۔

اس سے معلوم ہوا کہ ادب صرف اس وقت کے لوگوں پر نہیں بلکہ تمام انسان، جنات اور فرشتوں سب پر جاری ہے اور آداب خاص وقت تک کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضور کا باادب طریقے سے ذکر کرنے اور روضۂ رسول پر با ادب حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26،الحجرات:2)

اللہ پاک نے ایمان والوں کو دو آداب سیکھائے : (1) پہلا: اے ایمان والواجب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔ ( 2) دوسرا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمھیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب سے عرض کرو۔ جیسے کہو یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یانبی الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

(3) شانِ نزول : کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں منافقین اپنی آوازیں بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان اس معاملے میں ان کی پیروی کریں، اس پر مسلمانوں کو بارگاهِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آواز بلند کرنے سے منع کر دیا گیا۔ (تاکہ منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں) ۔(صراط الجنان،9/398)

(4) یہ آیت نازل ہونے کے بعد : حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو ۔(ترمذی)

(5) حضرت سلیمان بن حرب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ایک دن حضرت حماد بن زید رضی اللہ عنہ نے حدیث پاک بیان کی تو ایک شخص کسی چیز کے بارے میں کلام کرنے لگ گیا اس پر حماد بن زید رضی اللہ عنہ غضبناک ہوئے اور کہا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ (پ26،الحجرات:2)

(6) ابو جعفر منصور بادشاہ مسجدِ نبوی میں حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے ایک مسئلہ میں گفتگو کررہا تھا(اس دوران اس کی آواز کچھ بلند ہوئی) تو امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس سے فرمایا: اے مسلمانوں کے امیر اس مسجد میں آواز بلند نہ کر، کیونکہ اللہ پاک نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا: ترجمہ: اپنی آوازیں نبی ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کی آواز پر اونچی نہ کرو۔


اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک خوبصورت تعلیم وہ ادب کی بارے میں ہے ۔ دینِ اسلام نے جتنا زور ادب پر دیا اتنا کسی دوسرے دین نے نہیں دیا۔ دین اسلام نے بڑوں، اساتذہ، ماں باپ ، حاکم، قلم ،صفحات، کتاب، پانی وغیرہ الغرض ہر چیز کے ادب کو بیان کیا۔ تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ دین ہمیں کائنات کی جان شہنشاؤں کے شہنشاہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب نہ سکھائے۔

دنیا کے شہنشاؤں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بتانا ہے اور جب وہ چلا جاتا تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب کے اصول و قوانین ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے اللہ پاک نازل کئے ہیں۔ وہ عظیم شہنشاہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ گرامی ہے جن کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ نے حکم دیا اور قراٰنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ۔ جن میں سے 5 یہ ہیں:

(1)حضور حب بلائیں فوراً حاضر ہونا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)

(2)ایک دوسری کی طرح حضور کونہ پکارنا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)

(3) حضور کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کرنا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو ۔ (پ26،الحجرات:2)

(4) بے ادبی کے شبہے والے کلمات سے اجتناب کرنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)

(5) قول و فعل میں آگے نہ بڑھنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ (پ26، الحجرات:1)

الله ہمیں بارگاہِ نبوی کے آداب سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی عظیم ہستی کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں مثلاً اساتذہ ، والدین بادشاہ وغیرہ کے پاس جانے کے آداب ہیں ۔ ان آداب کو بجا لانا ضروری ہے جس طرح ان کے پاس جانے کے آداب ہیں اسی طرح حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دینے کے بھی آداب ہیں ۔ یوں تو پورا قراٰن ہی ادبِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کر رہا ہے لیکن یہاں پر 5 آداب بیان کئے جاتے ہیں:۔

پہلا ادب: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مقدم نہ ہو ۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

یعنی تم پر لازم ہے کہ نہ تم سے اصلاً تقدیم واقع ہو نہ ہی قول و فعل میں تقدیم واقع ہو ۔ کیونکہ تقدیم واقع ہونا یعنی حضور سرور عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنا ہے اوریہ بے ادبی ہے اور احترام کے بھی مخالف ہے۔

دوسرا ادب : بارگاہِ نبوی میں اپنی آوازیں پست رکھو ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت میں فرمایا گیا کہ جب بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دو تو ان کے حضور عاجزی سے کھڑے رہو اور آوازیں نہ دو۔

یہ آیتِ مبارکہ ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان کی آواز بات کرنے میں بلند ہو جایا کرتی تھی کیونکہ انہیں ثقلِ سماعت ( یعنی بلند آواز سنتے تھے) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں اہلِ نار میں سے ہوں۔ تو نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا حال دریافت فرمایا۔ تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتایا گیا کہ وہ بیمار بھی نہیں ہیں لیکن اس آیت مبارکہ کی وجہ سے اپنے آپ کو اہلِ نار سے بتا رہے ہیں تو نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔

تیسرا ادب : حُجروں کے باہر سے نہ پکارو :۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حُجروں کے باہر سے آوازیں لگاتے ہیں وہ بے عقل ہے۔ اگر وہ آوازیں نہ لگاتے اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے باہر آنے کا انتظار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ۔

چوتھا ادب : انْظُرْنَا کہو۔ ربِّ کریم مصطفی کے ادب کی تعلیم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام کو کچھ تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے ، راعنا یا رسول الله اس کے معنی تھے کہ یا رسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے ۔ یہود کی لغت میں یہ کلمہ ، سوءِ ادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کردیا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ یہودیوں کی زبان سے سن کر فرمایا کہ اے دشمنانِ خدا لغت تم پر اللہ کی لعنت ، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن مار دوں گا ۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم اور ان کی جناب میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمے میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو اس کو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

پانچواں ادب : نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حاکم بنانا: بارگاہِ نبوی کا ادب سکھاتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ترجمۂ کنزالایمان: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں ۔ (پ 5 ، النسآء:65)اس آیتِ مبارکہ میں بھی بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب بیان ہوا ہے کہ جو فیصلہ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما دیں اگر کوئی اس فیصلے کا انکار کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔

خاتمہ: اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ہے کہ ہمیں بارگاہ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب نصیب فرمائے اور بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ادب ایک ایسی شے ہے جو انسان کو باکمال بناتی ہے اور یہ اور یہ ادب کبھی کبھار انسان کی بخشش و مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ زمین پر ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا جس پر بسم اللہ شریف لکھا ہوا تھا، تو اسے اٹھا لیا، تو اس کے سبب وہ اللہ کے محبوب بندے بن گئے اور کبھی کبھار جب انسان بے ادبی کرتا ہے تو یہ اسے ناقص بنا دیتی ہے اور کبھی وہ مردود کر دیا جاتا ہے جیسا کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کی بے ادبی کی تو مردود ہو گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی سے محفوظ رکھے۔ اٰمین ۔ با ادب با نصیب۔ آئیے قراٰنِ کریم سے بارگاہِ نبوی کے پانچ آداب پڑھتے ہیں۔

پہلا ادب : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ (یعنی انتہائی توجہ کے ساتھ سنو) تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور! توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان ، ص 32 )

دوسرا ادب : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) امام قاضی ناصرالدین عبد الله بن محمد بن محمد رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگوں رسول کے پکارنے اور نام لینے کو ایسے نہ بنا لو جیسا کہ تم میں سے بعض بعضوں کو ناموں کے ساتھ اور بلند آواز سے اور کمروں کے پیچھے سے ندا دیتے ہو بلکہ نبی کریم علیہ السّلام کو عظمت والے لقب تعظیم ، تکریم، توقیر نرم آواز کے ساتھ اور عجز و انکساری سے انھیں پکارو مثلاً یوں پکارو: یا رسول الله، یا نبی اللہ، یا حبیب الله ۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: 63، 4/ 203)

تیسرا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) مفسرِ قراٰن مفتی قاسم دامت برکاتہم العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں جو مقام حضور علیہ السّلام کو حاصل ہے ۔ وہ مخلوق میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ۔( تفسیر صراط الجنان، 8/73)

چو تھا ادب : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24) اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو ۔(صراط الجنان، 3/539 )

پانچواں ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: یعنی جب حضور (بارگاہِ رسالت) میں عرض کرو تو آہستہ آواز سے عرض کرو، یہی دربارِ رسالت کا ادب و احترام ہے۔ (خزائن العرفان) 


الله پاک نے انسانوں کو زندگی گزارنے کے طریقے بتائے اور دو رستے دکھائے ایک جنت کا اور دوسرے کی انتہا جہنم ہے۔ پھر سیدھے رستے پر چلنے اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کا پابند بنایا اور ساتھ ساتھ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضری کے آداب کو بجالانے کا حکم ارشاد فرمایا۔ ادب کی شریعت مطہرہ میں بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ادب ایسے وصف کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتا یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔ ادب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمیں زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔ (الرسالۃ القشيريۃ، باب الادب، ص315 ) پھر اللہ پاک نے ان آداب کو بطورِ خاص قراٰنِ پاک کا میں بیان فرمایا جن میں سے 5 ملاحظہ ہوں ۔

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھنا : بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

(2) آواز بلند نہ کرنا: بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ ان کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کی جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے ۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) بات چلا کر نہ کرنا: آدابِ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب یہ ہے کہ ان کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھنا اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرنا ہے یعنی یا رسول الله ، یا نبی اللہ وغیرہ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو۔ (پ26،الحجرات:2)

(4) آواز پست رکھنا : آواز کو پست رکھنا بھی بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)

(5) حُجرے کے باہر سے پکارنے کی ممانعت : بارگاہِ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب یہ بھی بیان ہوا کہ ان کو حُجرے مبارک سے باہر سے نہ پکارا جائے بلکہ انتظار کیا جائے یہاں تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود تشریف لے آئیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ان آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ یاد رہے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جو ادب و احترام ان آیات میں بیان ہو یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفاتِ ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ (تفسیر سورۃ الحجرات و الحدید، ص12 ،ملخصاً مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

الله پاک ہمیں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضری کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنے اور بے ادبی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دنیا کا اصول ہے جب بھی کوئی بادشاہ آتا ہے وہ اپنے آداب و تعظیم کے اصول خود بتاتا ہے اور جب تک وہ بادشاہ رہتا ہے وہ اصول بھی قائم رہتے ہیں۔ لیکن جب اس کی بادشاہت ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے آداب بھی دفن ہو جاتے ہیں۔ جہاں کے رحمۃ للعلمین کی تشریف آوری ہوئی تو انہوں اپنے آداب خود نہ بنائے بلکہ ان کے آداب رب کریم سکھائے۔ قراٰنِ پاک میں کئی آیات میں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی بارگاہ کے آداب مؤمنین کو سمجھائے ۔ آئیے ان میں سے کچھ ہم بھی سیکھتے ہیں۔

(1) رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنے سے ممانعت: ایمان والوں کو قراٰنِ پاک میں قولاً وفعلاً رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھنے کو منع کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) شانِ نزول: چند شخصوں نے عید الاضحیٰ کے دن سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی، تو ان کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن العرفان )

(2) بارگاہِ نبوی میں آواز بلند کرنے سے ممانعت: قراٰنِ پاک میں بارگاہِ نبوی میں اونچی آواز کرنے کو بھی منع کیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت سے پتہ چلا کہ حضور کی بارہ گاہ میں ادب کے ترک کرنے سے اعمال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ (خزائن العرفان)

(3) حجروں کے باہر سے پکارنے سے ممانعت: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، قراٰنِ پاک نے ان کو بے عقل کہا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)

(4) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بلانے پر فوراً حاضر ہونے کا حکم۔ قراٰنِ پاک میں حضور علیہ السّلام کے آداب میں سے ایک ادب یہ بیان کیا گیا کہ جب وہ بلائیں تو بغیر تاخیر کے فوراً حاضر ہو جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24) (تفسیر خزائن العرفان میں ہے : کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ کا ہی بلانا ہے)۔

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جس کلمہ میں ترکِ ادب کا شبہ ہو وہ بھی نہ بولا جائے۔

صحابۂ کرام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لفظ راعنا بولتے تھے جس کا مطلب ہمارے حال کی رعایت فرمائیے اور لغت یہود میں یہ لفظ سوءِ ادب کامعنی رکھتا تھا اس لیے راعنا بولنے سے منع کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کر ام علیہم السّلام کی بارگاہ میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض اور ادب کے اعلی مراتب کا لحاظ رکھنا لازم، نیز اس آیت کے آخری حصہ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ سے معلوم ہوا کہ ان کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (خزائن العرفان،ص36)

دورِ حاضر میں اہلسنت و جماعت کا امتیازی نشان تعظیم و تو قیر اور آدابِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اور اہلسنت حضور سرورِ دو عالم اور جملہ انبیاء کرام علیہم السّلام اور صحابہ واہلبیت اور اولیاء ملت و علماء امت کے آداب و تعظیم کو دینِ اسلام اور ایمان کا جوہر(اصل) اور جزء لاینفک سمجھتے ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں اسی عقیدے پر جینا مرنا نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نمبر (1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر ِصراط الجنان: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

نمبر (3،2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)

نمبر (4) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5) تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجا لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 4/ 166 ، روح البیان ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 9 / 68 ، ملخصاً)

نمبر (5)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) نوٹ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طرح بارگاہِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم