پیارے اسلامی بھائیو! یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی عظیم ہستی کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں مثلاً اساتذہ ، والدین بادشاہ وغیرہ کے پاس جانے کے آداب ہیں ۔ ان آداب کو بجا لانا ضروری ہے جس طرح ان کے پاس جانے کے آداب ہیں اسی طرح حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دینے کے بھی آداب ہیں ۔ یوں تو پورا قراٰن ہی ادبِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کر رہا ہے لیکن یہاں پر 5 آداب بیان کئے جاتے ہیں:۔

پہلا ادب: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مقدم نہ ہو ۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

یعنی تم پر لازم ہے کہ نہ تم سے اصلاً تقدیم واقع ہو نہ ہی قول و فعل میں تقدیم واقع ہو ۔ کیونکہ تقدیم واقع ہونا یعنی حضور سرور عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنا ہے اوریہ بے ادبی ہے اور احترام کے بھی مخالف ہے۔

دوسرا ادب : بارگاہِ نبوی میں اپنی آوازیں پست رکھو ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت میں فرمایا گیا کہ جب بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دو تو ان کے حضور عاجزی سے کھڑے رہو اور آوازیں نہ دو۔

یہ آیتِ مبارکہ ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان کی آواز بات کرنے میں بلند ہو جایا کرتی تھی کیونکہ انہیں ثقلِ سماعت ( یعنی بلند آواز سنتے تھے) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں اہلِ نار میں سے ہوں۔ تو نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا حال دریافت فرمایا۔ تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتایا گیا کہ وہ بیمار بھی نہیں ہیں لیکن اس آیت مبارکہ کی وجہ سے اپنے آپ کو اہلِ نار سے بتا رہے ہیں تو نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔

تیسرا ادب : حُجروں کے باہر سے نہ پکارو :۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حُجروں کے باہر سے آوازیں لگاتے ہیں وہ بے عقل ہے۔ اگر وہ آوازیں نہ لگاتے اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے باہر آنے کا انتظار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ۔

چوتھا ادب : انْظُرْنَا کہو۔ ربِّ کریم مصطفی کے ادب کی تعلیم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام کو کچھ تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے ، راعنا یا رسول الله اس کے معنی تھے کہ یا رسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے ۔ یہود کی لغت میں یہ کلمہ ، سوءِ ادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کردیا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ یہودیوں کی زبان سے سن کر فرمایا کہ اے دشمنانِ خدا لغت تم پر اللہ کی لعنت ، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن مار دوں گا ۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم اور ان کی جناب میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمے میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو اس کو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

پانچواں ادب : نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حاکم بنانا: بارگاہِ نبوی کا ادب سکھاتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ترجمۂ کنزالایمان: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں ۔ (پ 5 ، النسآء:65)اس آیتِ مبارکہ میں بھی بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب بیان ہوا ہے کہ جو فیصلہ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما دیں اگر کوئی اس فیصلے کا انکار کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔

خاتمہ: اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ہے کہ ہمیں بارگاہ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب نصیب فرمائے اور بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم