انسان کو ہر زمانے میں اپنی دینی یاد نیوی ضرورت کو پورا کرنے کے تحت کسی ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو اس کے مقصد کو پورا کر سکے۔ ایک باشعور شخص جب کسی کے پاس مقصد کے حصول کے لیے جائے گا تو وہاں کے اصول و ضوابط اور لوازمات کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح ملازم جب اپنے سے سیٹھ کے پاس، شاگرد اپنے استاد کے پاس، مرید اپنے پیر کے پاس جاتا تو ہے تو ان کے بارگاہ کا ادب کرتا ہے۔ اس طرح بارگاہِ رسالت میں حاضری کے بھی آداب ہیں جن کو رب العالمین قراٰنِ کریم میں بیان فرماتا ہے۔

(1) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

(2) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

(3) وہ لوگ جو حضور کو پکارتے تھے اس حال میں کہ نبی حُجرے میں تھے، وہ عقل نہیں رکھتے، تو لوگوں کو تلقین کی گئی کہ جب وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوں اور حضور اگر حُجرے میں ہوں تو باہر سے آوازیں نہ دو یہاں تک حضور خود کو حُجرے سے نکل کر آئیں اور پھر تم ان سے اپنی عرض پیش کرو۔ فرمایا: جو ایسا کرتے ہیں یعنی باہر سے آوازیں دیتے ہیں وہ بے عقل ہیں۔

(4) اللہ نے فرمایا: تو حضور سے راعنا نہ کہو بلکہ انظرنا کہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں حاضری کے وقت ایسے الفاظ نہ بولے جائیں جن میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی خدشہ ہو، اس کو لانا ممنوع ہے اور ایسے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جن کے دومعنی ہو اچھے اور برے دونوں۔ اور غور سے ہر بات کو سننا چاہیے۔ یعنی جب حضور کی بارگاہ میں حاضری ہو تو توجہ سے بیٹھو ۔

(5) اے ایمان والو رسول اللہ کے پکارنے کو ایسا معمولی نہ سمجھو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے یعنی جب حضور پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب ہے اور حضور کو نام لے کر نہ پکارو ۔ جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لیتے ہو، بلکہ کہو یا رسول الله ،یا نبی الله۔

اس سے معلوم ہوا کہ ادب صرف اس وقت کے لوگوں پر نہیں بلکہ تمام انسان، جنات اور فرشتوں سب پر جاری ہے اور آداب خاص وقت تک کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضور کا باادب طریقے سے ذکر کرنے اور روضۂ رسول پر با ادب حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم