کلیم اللہ چشتی عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم، لاہور پاکستان)
دنیا کا اصول ہے جب بھی کوئی بادشاہ آتا ہے وہ اپنے آداب و
تعظیم کے اصول خود بتاتا ہے اور جب تک وہ بادشاہ رہتا ہے وہ اصول بھی قائم رہتے
ہیں۔ لیکن جب اس کی بادشاہت ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے آداب بھی دفن ہو جاتے ہیں۔
جہاں کے رحمۃ للعلمین کی تشریف آوری ہوئی تو انہوں اپنے آداب خود نہ بنائے بلکہ ان
کے آداب رب کریم سکھائے۔ قراٰنِ پاک میں کئی آیات میں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی
بارگاہ کے آداب مؤمنین کو سمجھائے ۔ آئیے ان میں سے کچھ ہم بھی سیکھتے ہیں۔
(1) رسولِ پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنے سے ممانعت: ایمان والوں کو قراٰنِ پاک میں
قولاً وفعلاً رسول پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھنے کو منع کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) شانِ نزول: چند شخصوں نے عید
الاضحیٰ کے دن سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی، تو ان کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن
العرفان )
(2) بارگاہِ نبوی میں آواز بلند کرنے سے ممانعت: قراٰنِ پاک میں
بارگاہِ نبوی میں اونچی آواز کرنے کو بھی منع کیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت سے پتہ چلا کہ حضور کی بارہ گاہ میں ادب کے ترک کرنے
سے اعمال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ (خزائن العرفان)
(3) حجروں کے باہر سے پکارنے سے ممانعت: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو حجروں کے
باہر سے پکارتے ہیں، قراٰنِ پاک نے ان کو بے عقل کہا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ
وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)
(4) حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بلانے پر فوراً حاضر ہونے کا حکم۔ قراٰنِ پاک میں
حضور علیہ السّلام کے آداب میں سے ایک ادب یہ بیان کیا گیا کہ جب وہ بلائیں تو بغیر
تاخیر کے فوراً حاضر ہو جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24) (تفسیر
خزائن العرفان میں ہے : کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ
کا ہی بلانا ہے)۔
(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ
میں جس کلمہ میں ترکِ ادب کا شبہ ہو وہ بھی نہ بولا جائے۔
صحابۂ کرام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ
میں لفظ راعنا بولتے تھے جس کا
مطلب ہمارے حال کی رعایت فرمائیے اور لغت یہود میں یہ لفظ سوءِ ادب کامعنی رکھتا تھا
اس لیے راعنا بولنے سے منع
کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کر ام علیہم السّلام کی
بارگاہ میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض اور ادب کے اعلی مراتب کا لحاظ رکھنا لازم،
نیز اس آیت کے آخری حصہ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ سے معلوم ہوا کہ ان کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (خزائن العرفان،ص36)
دورِ حاضر میں اہلسنت و جماعت کا امتیازی نشان تعظیم و تو قیر
اور آدابِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اور اہلسنت حضور سرورِ دو عالم
اور جملہ انبیاء کرام علیہم السّلام اور صحابہ واہلبیت اور اولیاء ملت و علماء امت
کے آداب و تعظیم کو دینِ اسلام اور ایمان کا جوہر(اصل) اور جزء لاینفک سمجھتے ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں اسی عقیدے پر جینا مرنا نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم