تنویر احمد عطاری ( جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم
سا دھوکی لا ہور پاکستان)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔
(پ26،الحجرات:2)
اللہ پاک نے ایمان
والوں کو دو آداب سیکھائے : (1) پہلا: اے ایمان
والواجب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی
بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو
بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔ ( 2) دوسرا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب
کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمھیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور
عظمت والے القاب سے عرض کرو۔ جیسے کہو یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
، یانبی الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد
ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔
(3) شانِ
نزول : کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں منافقین اپنی
آوازیں بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان اس معاملے میں ان کی پیروی کریں، اس
پر مسلمانوں کو بارگاهِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آواز بلند کرنے
سے منع کر دیا گیا۔ (تاکہ منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں) ۔(صراط الجنان،9/398)
(4) یہ آیت نازل ہونے کے بعد : حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں
بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے
ہو ۔(ترمذی)
(5) حضرت سلیمان بن حرب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ایک دن حضرت
حماد بن زید رضی اللہ عنہ نے حدیث پاک بیان کی تو ایک شخص کسی چیز کے بارے میں
کلام کرنے لگ گیا اس پر حماد بن زید رضی اللہ عنہ غضبناک ہوئے اور کہا: اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔
(پ26،الحجرات:2)
(6) ابو جعفر منصور بادشاہ مسجدِ نبوی میں حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے ایک مسئلہ میں گفتگو
کررہا تھا(اس دوران اس کی آواز کچھ بلند ہوئی) تو امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ نے
اس سے فرمایا: اے مسلمانوں کے امیر اس مسجد میں آواز بلند نہ کر، کیونکہ اللہ پاک
نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا: ترجمہ: اپنی آوازیں نبی ( صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم)کی آواز پر اونچی نہ کرو۔