ادب ایک ایسی شے ہے جو انسان کو باکمال بناتی ہے اور یہ اور یہ ادب کبھی کبھار انسان کی بخشش و مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ زمین پر ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا جس پر بسم اللہ شریف لکھا ہوا تھا، تو اسے اٹھا لیا، تو اس کے سبب وہ اللہ کے محبوب بندے بن گئے اور کبھی کبھار جب انسان بے ادبی کرتا ہے تو یہ اسے ناقص بنا دیتی ہے اور کبھی وہ مردود کر دیا جاتا ہے جیسا کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کی بے ادبی کی تو مردود ہو گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی سے محفوظ رکھے۔ اٰمین ۔ با ادب با نصیب۔ آئیے قراٰنِ کریم سے بارگاہِ نبوی کے پانچ آداب پڑھتے ہیں۔

پہلا ادب : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ (یعنی انتہائی توجہ کے ساتھ سنو) تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور! توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان ، ص 32 )

دوسرا ادب : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) امام قاضی ناصرالدین عبد الله بن محمد بن محمد رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگوں رسول کے پکارنے اور نام لینے کو ایسے نہ بنا لو جیسا کہ تم میں سے بعض بعضوں کو ناموں کے ساتھ اور بلند آواز سے اور کمروں کے پیچھے سے ندا دیتے ہو بلکہ نبی کریم علیہ السّلام کو عظمت والے لقب تعظیم ، تکریم، توقیر نرم آواز کے ساتھ اور عجز و انکساری سے انھیں پکارو مثلاً یوں پکارو: یا رسول الله، یا نبی اللہ، یا حبیب الله ۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: 63، 4/ 203)

تیسرا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) مفسرِ قراٰن مفتی قاسم دامت برکاتہم العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں جو مقام حضور علیہ السّلام کو حاصل ہے ۔ وہ مخلوق میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ۔( تفسیر صراط الجنان، 8/73)

چو تھا ادب : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24) اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو ۔(صراط الجنان، 3/539 )

پانچواں ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: یعنی جب حضور (بارگاہِ رسالت) میں عرض کرو تو آہستہ آواز سے عرض کرو، یہی دربارِ رسالت کا ادب و احترام ہے۔ (خزائن العرفان)