دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہےکہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم وادب اور دربار میں حاضری کے اصول و آداب خود بناتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ کے دربار کا عالم ہی نرالا ہے۔ اس کی تعظیم اور بارگاہ میں حاضری کے ادب واحترام کے اصول و قوانین اس نے خود نہیں بنائے۔بلکہ ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب کریم نے نازل فرمائےہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں، ظا ہری حیات میں بھی اور ظاہری وصال کے بعد بھی۔قرآنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے با قاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ہیں۔جن میں اللہ پاک نےمتعدد احکام دیئے ہیں۔

1)حضور اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اورپس و پیش سے کام نہ لو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ(الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

2-نبی کریم ﷺ کو پکارنے اور مخاطب کرنے کا انداز عام لوگوں جیسا نہیں ہونا چا ہیےاس طرح مخاطب کرنا چاہیے جس میں ادب و احترام ملحوظ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

علمائےکرام تو اس بات سے بھی منع فرماتے ہیں کہ آقا ﷺ کو” یا محمد“ بھی نہ کہیں بلکہ خوبصورت القابات کے ساتھ جیسے ” یا رسول الله، یا حبیب الله“وغیرہ کہہ کر پکاریں۔

3-پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کی جائے، چاہے نبی پاک ﷺ تنہا ہوں یا مجلس میں تشریف فرما ہوں۔یہی صورت حال اس وقت روضہ رسول کی زیارت و حاضری کے وقت بھی ہونی چاہیے۔چنا نچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

4)جس کلمے میں بے ادبی کا شائبہ ہو یا ایسے الفاظ جو بولنے میں ایک جیسے اور مطالب میں الگ ہوں ایسے الفاظ سے گریز کیا جائے جیسے مسلمان عرض کرتے تھے:”راعنا یعنی ہماری رعایت فرمائے“ یہود زبان دبا کر اسی لفظ کو ”راعینا یعنی ہمارے چروا ہے“ کہتے جو یقیناً ہمارے نبی کریم ﷺکی شان کے خلاف تھا، اس لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)ترجمہ: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

5) بعض لوگوں نے عیدِ اضحیٰ کے دن حضور سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔اس بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

ان آیات میں دیئے گئے احکام سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ادب نہ کرنا اللہ کے نزدیک سخت ناپسند ہے۔اللہ پاک اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمارے دلوں اور اعمال وکردار میں نبی کریم ﷺ کے ادب اور محبت کو راسخ کر دے۔ آمین