غلام نبی عطّاری ( درجہ دورة الحديث فیضان مدینہ آفندی
ٹاؤن حيدرآباد پاکستان)
اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت
سارے اوصاف سے مزین فرما کر دنیا پر دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا جن کی کوئی
انتہا نہیں۔ اعلی حضرت رحمۃُ الله علیہ فرماتے :
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں
تری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا
کیا کہوں تجھے
اور جس شخصیت کو اللہ پاک نے دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے
بھیجا اس مبارک ہستی اور اس کی بارگاہ کے آداب بھی امتیوں کو قراٰنِ کریم کے ذریعہ
سکھائے۔ مثلاً مجلس میں بیٹھنے کے آداب، بات چیت کے آداب، ندا( پکارنے) کے طریقے
وغیرہ جن میں سے 5 آداب بارگاہِ نبوی قراٰنِ کریم کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:۔
(2،1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)تفسیر : اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو
اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ
ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام
فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان
کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آہستہ
اور پست آواز میں بات کرنے والوں کا مقام و مرتبہ اور اجرو ثواب اس آیت مبارکہ میں
ملاحظہ فرمائیے : اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں
رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے
بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3) تفسیر: اس کے شانِ نزول میں ہے : جب یہ آیت(لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ) نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق
اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہت احتیاط لازم کر لی اور
سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بہت ہی پست آواز سے عرض
و معروض کرتے۔
اس آیت سے ہونے والی
معلومات: (1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ (2)…اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ
لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔(3)… حضرت ابو
بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہما کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ پاک نے
ان کی بخشش کا اعلان فرما دیا ہے ۔(صراط الجنان، 9/405)
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر کے باہر سے
پکارنے والوں کو اللہ پاک نے بے عقل فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد
المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت
اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)
(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان
میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول
اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا
رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔
یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت
سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی
اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی
زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی
زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم
ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں
حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔
(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45)
ان آیاتِ مبارکہ سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کے آداب معلوم ہوئے اور یہ آداب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
ظاہری حیات کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفاتِ ظاہری سے لے کر تا قیامت یہی
آداب باقی ہیں۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی
جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ
ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے
دو معنی ہوا چھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو
تو وہ بھی اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے
جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کا ادب رب العلمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری
فرماتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم