مقولہ ہے کہ

با ادب بانصیب بے ادب بد نصیب

جوادب کرنے والا ہوتا ہے وہ بے بہا نعمتیں پاتا ہے اور پھر جب بات سرکار ﷺ کے ادب و تعظیم کی ہو تو اس کا باقاعدہ اہتمام ہونا چاہیے کہ سرکار کی تعظیم و ادب ایمان کا لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں چنانچہ اس بات کی اہمیت کا اندازه اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب العزت ہمیں قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنےمحبوب کے متعلق آداب سکھا رہا ہے۔

1۔حضور کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھیں: جب بھی حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہو تو روضہ رسول پر آوازیں بلند نہ کریں بلکہ شہرنبی کا ادب کرتے ہوئے مدینۃالرسول میں بھی اپنی آواز کو پست رکھیں اور حضور کا ادب وصالِ ظاہری کے بعد بھی ویسا ہی کیا جائےگا جیسا کہ حیات ِ طیبہ میں لازم تھا اور یہ ادب قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے اور جب حضور کی حدیث مبارکہ بیان کی جائے تب بھی ادب کا لحاظ رکھا جائے اور خاموش رہ کر سنا جائے۔ جیسا کہ رب کریم سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 میں حکم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے۔

2۔حضور کی جناب میں ادب کے الفاظ استعمال کریں: رب کریم سورہ بقرہ کی آیت 104میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر فرمائیں۔راعنا کا لفظ یہودیوں کی لغت میں بے ادبی کے لیے استعمال ہوتا تھا تو صحابہ کرام کو اس پر بہت دکھ ہوتا تھا کیونکہ اگر بارگا ہ نبوی میں کوئی بات سمجھ نہ آتی تو حضور ﷺ کو راعنا کہتے تھے، اس پر رب کریم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ راعنا کے بجائے لفظ ”انظرنا “استعمال کیا جائے۔

3۔حضورکو اچھے ناموں سے پکاریں: رب کریم پارہ18 سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں ارشاد فر ماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

اس کی تفسیرمیں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نورالعرفان میں فرماتے ہیں کہ حضور کو ایسے القاب و آوازسے نہ پکا رو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو انہیں بھیا،چچاکہہ کر نہ پکارو بلکہ انہیں یا رسول اللہ وغیرہ کہہ کر پکارا جائے۔ آپ کے نام مبارک سے بھی نہ پکارا جائے۔

4۔مواجہ شریف کو بھی پیٹھ کر کے رخصت نہ ہوا جائے: حضور ﷺ کی بارگاہ کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ مواجہ پر حاضر ہو کر عرض کیا جائے اور وہیں پر رخصت کی اجازت طلب کرے اور وقت رخصت پیٹھ پھیر کر چلنے کے بجائے الٹے قدم چلتے چلتے رخصت ہوا جائے۔

5۔مواجہ و مسجد نبوی میں چلا کر بات نہ کی جائے:اس بات کا اہتمام ہمیں بالخصوص مسجد نبوی اور مواجہ کے سامنے کرنا چاہیے کہ وہاں چلا چلا کر آپس میں کلام نہ کیا جائے مگر افسوس!فی زمانہ اس کا کوئی لحاظ و اہتمام نہیں رکھا جاتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں آداب رسالت کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔