اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ذاتِ مبارکہ اور آپ کی شان اتنی ارفع و اعلی ہے کہ ربِ کریم نے قراٰنِ
مجید میں جابجا آپ کی نعت بیان فرمائی اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ آپ کی
اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے
اللہ کا حکم مانا ۔(پ5النسآء:80)اسی طرح اپنے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب و احترام کے متعلق بھی واضح اور صریح کو حکم
فرمائے۔ چنانچہ
(1)سورۂ نور آیت 63 میں فرمایا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ
بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے
پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)اس آیتِ کریمہ
کے تحت علامہ علاء الدین علی بن محمد تفسیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن عباس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے نہ پکارو
جیسے تم دوسروں کو پکارتے ہو اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو نام
سے نہ پکارو بلکہ حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کے ادب و تعظیم وتوقیر کو ملحوظ
رکھتے ہوئے یوں پکارو یا حبیب اللہ یا نبی الله یا رسول اللہ۔(تفسیرِ خازن، 3/365)
(2)اسی طرح بارگاہِ نبوت کے آداب کے متعلق اللہ پاک سورہ انفال
میں فرماتا ہے: لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ
اور رسول سے خیانت نہ کرو۔(پ9،الانفال:27) اس
آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے خیانت کا معنی یہ ہے کہ آپ کا حکم نہ ماننا یا آپ کی سنت پر عمل
نہ کرنا اور، ابن جریر نے ابن عباس سے تخریج کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خیانت سے مراد آپ کی نافرمانی اور سنت کو ترک کرنا ہے اور مزید
فرمایا کہ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے سامنے کچھ اور ظاہر کرو اور تمہارے دلوں میں کچھ اور ہو۔(تفسیر روح
المعانی، 5/257)
آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی بارگاہ میں آپ سے خیانت نہ کی
جائے اور نہ ہی آپ کے سامنے ظاہر کچھ اور کیا جائے اور دلوں میں کچھ اور ہو۔
(3)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب
بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک ایک اور مقام پر فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)اس
آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تمہیں بلائیں تو اطاعت کرو، اعراض و نافرمانی نہ کرو حتی کہ اگر فرض
نماز بھی پڑھ رہے ہو تو نماز چھوڑ کر رسولُ اللہ کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے۔
عظیم محدث حضرت سلیمان بن اشعث سجستانی روایت فرماتے ہیں کہ
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے بلایا تو میں حاضر نہ ہوا پھر میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو
آپ نے پوچھا تم کیوں نہیں آئے میں نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا فرمایا کیا
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ و رسول کے بلانے پر فوراً حاضر ہو۔
(4)بارگاہِ نبوت کی عظمت و شان کو بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک
نے ایک اور مقام پر فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن
نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 )
اس آیتِ مبارکہ کے تحت مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں اس آیت کا شانِ
نزول یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے، پھر وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور
کھانا ملنے تک وہیں بیٹھے رہتے، پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے نکلتے نہ تھے
اور اس سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اَذِیَّت ہوتی تھی، اس پر یہ
آیت نازل ہوئی۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے
کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خود ہی میرے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو،
ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی
مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ
ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو
کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے ۔ بیشک تمہارا
یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے
تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا ۔ ( روح البیان، الاحزاب،
تحت الاٰيۃ : 53 ، 7/ 213-214)
(5)بارگاہِ نبوت کے آداب بیان فرماتے ہوئے الله پاک سورہ حجرات
آیت نمبر 1 میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) حضرت مفتی احمد یار خان
فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حکم عام ہے یعنی نہ کسی بات میں اور نہ ہی کسی کام میں
اور نہ ہی کھانا تناول فرمانے میں نہ ہی اپنی عقل اور رائے کو حضور کی رائے سے
مقدم کرو۔ (شان حبیب الرحمٰن من آیات القراٰن، ص 224 ،مکتبہ اسلامیہ)
اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی قول
اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔
ابو الوفا بن محمد اسلم (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ ملتان، پاکستان)
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش
نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید
ایں جا
یعنی آسمان کے نیچے مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا دربار ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اور بایزید بسطامی
عليهما الرحمہ جیسے عظیم اولیا بھی سانس روک کر آتے ہیں یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں
لیتے ۔ ادب، ایک قسم کا خاص اور سنجیدہ برتاؤ ہوتا ہے جو ہر چھوٹے، بڑے، جان،
انجان، سب سے کیا جاتا ہے اس کی وجہ اچھی تربیت ہے۔ اسلام کے مطابق کے زندگی
گزارنا اور گفتگو اور کردار میں عمدگی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ادب کی نشانی
ہیں۔ جبکہ بیوقوفی، برا کلام کرنا، برے اخلاق، گالی گلوچ، ہٹ دھرمی اور ضد وغیرہ
بے ادبی کے نمونے ہیں۔ ادب و احترام ہی کی بدولت انسان کو کامیابی و کامرانی نصیب
ہوتی ہے۔
اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو عزت و شرافت، احترام و تعظیم اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا،
اتنا کسی اور کو نہیں دیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل سے وجہ تخلیق
کائنات، واجب الاتباع، شفیع المذنبین، رحمت اللعالمین، محسن انسانیت، ہادی و رہبر
اور محبوب خدا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بادشاہ اپنے دربار کے آداب کے
قوانین خود بناتے ہیں پھر جو ان قوانین پر عمل کرتا ہے اسے انعام اور جو نہیں کرتا
اس کی سرزنش کرتے ہیں اور یہ قوانین صرف انسانوں پر جاری ہوتے ہیں دیگر مخلوقات پر
نہیں اور جب بادشاہ دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے قوانین بھی ختم لیکن حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار، ایسا دربار ہے کہ جس کے آداب اور جس میں حاضر
ہونے کے قاعدے، سلام و کلام کرنے کے طریقے، خود ربِّ کریم نے بنائے اور اپنی مخلوق
کو بتائے کہ اے میرے بندو! جب اس دربار میں آؤ تو ایسے ایسے آداب کا خیال رکھنا
اور خود فرمایا کہ اگر تم نے اس کے خلاف کیا تو تم کو سخت سزا دی جائے گی پھر لطف یہ
کہ اس شہنشاہ نے ہم سے پردہ فرما لیا اس کی چہل پہل ہماری نگاہوں سے غائب ہو گئی
مگر اس کے آداب اب تک وہی باقی، اس کا طمطراق اسی طرح برقرار، پھر اس دربار کے
قوانین صرف انسانوں پر جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت کا یہ حال ہے کہ فرشتے بغیر
اجازت وہاں حاضر نہ ہوسکیں، جانور سجدے کریں، بے جان کنکر اور درخت کلمہ پڑھیں،
چاند، سورج اشاروں پر چلیں، اس کے اشارے سے بادل برسیں، دوسرا اشارہ پا کر بادل
پھٹ جائیں غرض یہ کہ ہر عرشی، فرشی اس قاہر حکومت کے تابع ہیں۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص،
2 مطبوعہ، ضیاء القراٰن پبلیکیشنز لاہور)
قراٰنِ کریم میں جہاں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی سیرتِ طیبہ کا بیان ہے وہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع
کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے
ادب و احترام کے تقاضے بجا لانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ بے شمار آیاتِ مبارکہ اس پر
شاہد ہیں کہ اہلِ ایمان پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنا
اور تعظیم نبوی کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازمی اور
ضروری ہے۔
قراٰنِ کریم سے چند آداب بارگاہِ نبوی ملاحظہ فرمائیں:۔
(1)کسی کام میں حضور
سے آگے نہ بڑھنا: کچھ لوگ زمانہ رسالت میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پہلے ہی قربانی کر لیتے اور کچھ لوگ رمضان سے پہلے روزے رکھنا شروع کر دیتے،
اللہ نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت نے ادب سکھایا کہ کوئی مسلمان اللہ کے حبیب علیہ السّلام
سے کلام میں، چلنے میں غرض کسی کام میں حضور سے آگے نہ بڑھے حتی کے راستہ میں رسولُ
اللہ سے آگے ہرگز نہ چلے۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص، 2)
اس آیت میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ پاک سے آگے
ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا
زمانہ میں ہوتا ہے یا جگہ میں ، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی
ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص224- 225 مخلصا)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :(اس
آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام
میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے
ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی
ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا
ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم
کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224)
(2) حضور کی بارگاہ میں
ذو معنی الفاظ استعمال کرنا: "سلطنتِ
مصطفیٰ" صفحہ 5 پر ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جب حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے حضور سے تعلیم حاصل کرتے تو بعض اوقات اگر
کچھ سمجھ نہ آتا تو عرض کرتے" راعنا یا رسول اللہ" یعنی حضور ہمارا لحاظ فرما دیجئے یعنی دوبارہ فرمائیں
تاکہ ہم سمجھ لیں۔ یہود زبان میں یہ لفظ گستاخی تھا تو اس معنی میں استعمال کرنے
لگے اور دل میں خوش ہوئے کہ ہم کو بارگاہِ رسالت میں بکواس کرنے کا موقع مل گیا۔ نیتوں
سے واقف رب ہے، اس کو یہ کیسے پسند ہو سکتا تھا کہ کسی کو میرے محبوب کی جناب میں
گستاخی کا موقع ملے، آیتِ کریمہ آئی اور "راعنا" کی بجائے "انظرنا" (حضور ہم پر نظر فرمائیں) کہنے کا حکم ہوا۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی
تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ
ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں
حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے
معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور
تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء
کرام علیہم السّلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (صراط الجنان، 1/ 181)
(3)حضور کی بارگاہ میں
راز کی بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ کرنا: ایک بار ایسا
اتفاق ہوا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں مالدار صحابہ کرام
علیہم الرضوان حاضر خدمت تھے عرض معروض کا سلسلہ طویل ہو گیا جس کی وجہ سے غریب
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کچھ عرض کرنے کا موقع نہ ملا، جس کے بعد یہ آیت اتری
اور صدقہ کرنے کا حکم ہوا۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ
الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ
لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان
: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے
پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم(
اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔ (پ28،المجادلۃ: 12)
سبحان اللہ کیا خوبصورت تعلیم ہے کہ رب کی بارگاہ میں حاضری
دینی ہو یعنی نماز پڑھنی ہو تو وضو کافی مگر رب کے محبوب کی بارگاہ میں حاضری دینی
ہو تو پہلے صدقہ کرو اس میں دو فائدے ہیں ایک تو غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو
عرض کرنے کا موقع ملنا ہے اور دوسرا یہ کہ دل میں اس بارگاہ کا ادب بیٹھ جائے گا
جو چیز کچھ خرچ اور محنت سے حاصل ہو اس کی وقعت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ یہ آیت کریمہ
بعد کو منسوخ ہوگئی مگر بارگاہِ رسالت کی شان کا پتہ لگ ہی گیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص
5-6)
بعض روایتوں کے مطابق اس حکم پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ
عنہ نے عمل کیا اور 1دینار صدقہ کرکے 10 مسائل دریافت کئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔(صراط الجنان، 10/
49)
(4)حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ عالی وہ بارگاہ ہے جہاں پر
آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا۔ ایک صحابی جن کا نام حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی
اللہ عنہ ہے وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں
آواز بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔(صراط الجنان،
9 /397)
علما نے یہاں تک فرمایا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کے ساتھ پکارنا یعنی "یا محمد" کہنا حرام ہے۔
(صراط الجنان، 1/49)
اللہ اکبر کیسی بلند بارگاہ ہے عبادات میں غلطی ہو جائے تو
"سجد سہو" "دم" "قضا" وغیرہ کی صورت میں کفارہ ہے لیکن
محبوب کی بارگاہ ایسی بارگاہ کہ اگر آواز بلند ہو جائے تو ساری زندگی کے اعمال ہی
ضائع۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی جناب میں سب زیادہ مقرب بارگاہ، حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ہے کہ جس میں بلند آواز ہونا رب نے گوارا نہ
فرمایا اور زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی۔
(5) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر ہر حال میں عمل کرنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ
رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ
مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ
و رسول کچھ حکم فرما دیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ
مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔ (پ 22 ، الاحزاب: 36)
اس آیت کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت زید ابن حارثہ جو
حضور علیہ السّلام کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضور کی خدمت میں رہتے تھے حضور نے
ان کے نکاح کا پیغام حضرت زینب بنت جحش کو دیا۔ حضرت زینب بنت جحش خاندانِ قریش کی
بڑی عزت والی بی بی تھی ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس کو منظور نہ کیا کیونکہ
وہ قریشی اور بہت باعزت تھی زید قریشی نہ تھے نکاح میں کفو کا خیال رکھا جاتا ہے
اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اس آیت کے نزول کے بعد ان سب کو راضی ہونا پڑا اور
نکاح ہوگیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص 19)
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:(1)آدمی پر رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت ہر حکم میں واجب ہے۔ (2)…حضور پُر نور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم اللہ پاک کا حکم ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے مقابلے میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں ۔ اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کا شانِ نزول لکھنے کے بعد فرماتے ہیں
’’ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ پاک کی طرف سے فرض نہیں کہ فلاں سے نکاح پر خواہی
نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کُفو (یعنی ہم پلہ) نہ ہو خصوصاً جبکہ
عورت کی شرافت ِخاندان کَواکب ِثریا (یعنی ثریا ستاروں ) سے بھی بلند وبالاتر ہو،
بایں ہمہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر اللہ
پاک نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو کسی فرضِ اِلٰہ (یعنی اللہ پاک کے فرض)
کے ترک پر فرمائے جاتے اور رسول کے نامِ پاک کے ساتھ اپنا نامِ اقدس بھی شامل فرمایا
یعنی رسول جو بات تمہیں فرمائیں وہ اگر ہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے
فرضِ قطعی ہو گئی ،مسلمانوں کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا، جو نہ مانے
گا صریح گمراہ ہوجائے گا، دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتا ہے اگرچہ فی
نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح و جائز
امر تھا۔(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم اور آپ کے مشورے میں فرق
ہے، حکم پر سب کو سر جھکانا پڑے گا اور مشورہ قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق
ہو گا۔ اسی لئے یہاں : ’’ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا ‘‘ ’’یعنی جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں ۔‘‘ فرمایا گیا
اور دوسری جگہ ارشاد ہوا: ’’ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ‘‘(پ4،اٰل عمران:159) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(صراط الجنان، 8/
34- 35)
محفوظ صدا رکھنا شہا بے ادبوں
سے
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو
اللہ ہمیں اپنے پیارے بندوں کا ادب اور سب محبوبوں کے
محبوب، محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور بار بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کی باادب حاضری نصیب
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حبیب الرحمن عطّاری (درجہ رابعہ جامعہ المدینہ چھانگا
مانگا ضلع قصور، پاکستان)
ادب اصل بندگی ہے تمام دینی اور دنیاوی کاموں کا حسن ادب میں
ہے ہر شخص کے لیے اس کے مقام کے مطابق علیحدہ آداب ہیں۔ جتنا بڑا مقام اتنے زیادہ
آداب۔ مروّت، سنت اور عزت کی حفاظت ادب ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام سب سے بڑا ہے لہذا آپ کے آداب بھی زیادہ ہیں۔
دنیا میں صرف آپ کی ذات ہے جن کے آداب خود اللہ پاک بیان فرماتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں
کئی آیاتِ مبارکہ آدابِ نبوی کو بیان کرتی ہیں۔ لہٰذا 5 آداب ملاحظہ فرمائیں:۔
ادب (1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور
آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو
کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے
بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو
جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ (تفسیر صراط
الجنان ،9/ 394)
ادب (3،2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز
سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے
اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( صراط
الجنان ،9 / 397 )
ادب (4)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود
جاری فرماتا ہے۔ اس آیت
میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی جناب میں بے ادبی
کفر ہے ۔ (صراط الجنان، 1/181 )
ادب (5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول
کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی
ہے۔(پ9،الانفال:24) اس آیت سے ثابت
ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی کسی کو بلائیں تو اس
پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف
ہو ۔(صراط الجنان، 3/539 )
اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطاری( درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین راولپنڈی، پاکستان)
اللہ پاک نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو بہت ساری شانوں سے نوازا، جن میں سے ایک شان یہ بھی عطا فرمائی کہ مسلمانوں کو بارگاہِ
رسالت ماٰب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھنے کا
حکم ارشاد فرمایا، اور کمال تو یہ ہے کہ نہ صرف حکم ارشاد فرمایا بلکہ آدابِ بارگاہِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر مفصّل تربیت فرمائی ۔کوئی بھی بادشاہ و
حاکم وغیرہ جب اقتدار میں آتا ہے تو اپنے آداب خود بیان کرتا ہے اور جب اقتدار
جاتا ہے تو اس کے بنائے ہوئے ادب کے اصول بھی اس کے ساتھ چلے جاتے ہیں، لیکن حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان کا عالم یہ ہے کہ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے آداب اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں بیان فرمائے اور قیامت تک
کے لیے ان قوانین کا پابند رہنے کا حکم دیا۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے بارگاہِ
نبوی کے جو آداب بیان فرمائے ہیں ان میں سے پانچ مندرجہ ذیل ہیں:۔
(1) بے ادبی کے شبہ
سے بھی بچو: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو۔(پ1،البقرۃ:104) بارگاہِ رسالت میں جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تربیت فرما رہے
ہوتے اور صحابہ کرام کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ فرماتے ” راعنا
یا رسول اللہ“ یعنی یا رسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے ہمیں
دوبارہ سمجھائیے ۔ لیکن یہودیوں کی لغت میں اس کا معنی بے ادبی کا تھا تو وہ اسی نیت
سے بولنے لگے تو اللہ پاک نے یہ نہ فرمایا کہ مسلمانوں کی نیت ٹھیک ہے اور یہودیوں
کی غلط بلکہ حکم ارشاد فرمایا کہ جس لفظ میں بے ادبی کا شک بھی ہو تو وہ لفظ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لیے بولا ہی نہ جائے۔(صراط الجنان،1/181،ملخصاً)
(2) پکارے جاٶ تو فوراً حاضر ہو: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ
لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے
بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)یہاں مؤمنین کو بارگاہِ نبوی کا
ادب سکھایا گیا ہے کہ خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں، جب بارگاہِ رسالت سے بلاوا
آجائے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے پہنچو۔ اس آیت میں ”دعا“ صیغہ واحد لایا گیا کیونکہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ پاک کا بلانا ہی ہے۔(صراط
الجنان،3/539، ملخصاً)
(3) عام لوگوں کی طرح
مت پکارو: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ
كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)یعنی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ان کے نام
کے ساتھ مت پکارو جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو نام کے ساتھ پکارتے ہو اور نہ ہی
بے ادبی والے ناموں کے ساتھ پکارو بلکہ تعظیم و ادب والے القابات کے ساتھ پکارو جیسا
کہ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، یَانَبِیَّ اللّٰہِ ، یَاحَبِیْبَ
اللّٰہِ ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، یَاخَاتَمَ
النَّبِیِّیْنَ ، وغیرہ۔(صراط الجنان،6/675، ملخصاً)
(4) آگے مت بڑھو : : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت کے تحت تفسیر
صراط الجنان میں ہے کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کسی
بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور
علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی
حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے
شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی
رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔(صراط الجنان،9/394،ملخصاً)
(5) آوازیں پست رکھو
: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) اس آیت میں ایمان والوں کو بارگاہِ نبوی میں کلام کرنے سے
متعلق ادب سکھایا گیا ہے کہ اس بارگاہ میں جب بھی کلام کرنا ہو تو اپنی آواز کو
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز مبارک سے آہستہ رکھنی ہے۔ اسی لیے
صحابۂ کرام بہت آہستگی سے گفتگو فرمایا کرتے تھے اور بعض صحابۂ کرام اتنا آہستہ
کلام فرماتے تھے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں دوبارہ بولنے کا
ارشاد فرماتے تھے۔ (صراط الجنان،9/397،ملخصاً)
بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب
چونکہ تا قیامت تک کے لیے ہیں، اسی لیے ہم پر لازم ہے کہ جب کبھی اللہ پاک کے فضل
و کرم سے روضۂ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر حاضری دینے کا شرف حاصل ہو
تو بارگاہِ نبوی کے تمام تر آداب کو پیشِ نظر رکھا جائے اور ہر طرح کی قولی و فعلی
بے ادبی سے پچا جائے کیونکہ بے ادبی سے نیکیوں کے برباد ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا
ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی بے ادبی کر بیٹھیں اور رب تعالٰی ہمارے تمام تر نیک
اعمال ضائع فرما دے اور ہمیں خبر بھی نہ ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے: اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان:
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
اللہ پاک ہمیں بارگاہِ نبوی میں حاضری دینے کی سعادت بخشے
اور اس بارگاہ کا خوب خوب ادب و احترام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیارے مسلمان بھائیوں! کہا جاتا ہے ”ادب پہلا قرینہ ہے محبت
کے قرینوں کا“ کائنات کا یہ دستور ہے جتنی اہم شخصیت ہو اتنا ہی اس کا ادب کیا
جاتا ہے، سب سے بڑا بے ادب شیطان ہے اس نے آدم علیہ السّلام کا ادب نہ کیا! اس پر
(فَاخْرُ جْ مِنْهَا
فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷)) کی پھٹکار ہے، ہم مرشد، استاذ، والدین کا ادب کرتے ہیں
کیونکہ یہ رشد و ہدایت کے وہ موتی ہیں جن کی چمک دمک سے عالم روشن ہے یہ ہر انسان
کی زندگی کی سب سے اہم شخصیات ہیں۔ مرشد نے باطن سنوارا، استاذ نے علم میں نکھارا،
والدین کی وجہ سے وجود ہے ہمارا، تو لہذا جو اللہ کے محبوب ہیں، آدم و بنی آدم
بلکہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے سردار ہیں، کوثر و تسنیم کے مالک ہیں، وجہ
تخلیق کائنات ہیں، تمام نبیوں کے خاتم ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا کس
قدر ادب ہونا چاہیے؟ اس کا اندازہ عقل انسانی کے بس کی بات نہیں! خالق کائنات نے
اپنے محبوب کے ادب کی تعلیم اپنی مخلوق کو عطا فرمائی اور قراٰن میں جا بجا حضور
کی تعظیم بیان فرمائی جن میں سے پانچ کا ہم ذکر کرتے ہیں:۔
(1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ
لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے
بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وہی نورِ حق وہی ظلِّ ربّ ہے
انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ
زمیں نہیں کہ زماں نہیں
علماء کرام فرماتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کے نبی پاک جب
بھی بلائے امتی کو فوراً بارگاہِ مصطفوی میں حاضر ہونا ضروری ہے چاہے فرض نماز میں
ہی کیوں نہ ہو۔
حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُبَی بن کعب رضی اللہُ عنہ کی طرف
تشریف لائے اور انہیں آواز دی ’’اے اُبَی! حضرت اُبَی رضی اللہُ عنہ نماز پڑھ رہے
تھے، انہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہ
دیا، پھر مختصر نماز پڑھ کر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں
حاضر ہوئے اور عرض کی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’وَعَلَیْکَ
السَّلَامْ‘‘ اے اُبَی! جب میں نے تمہیں پکارا تو جواب دینے میں کونسی
چیز رکاوٹ بنی۔ عرض کی: یا رسولَ اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے قراٰنِ پاک میں یہ نہیں
پایا کہ’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ
لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘ عرض کی: ہاں یا رسولَ اللہ
! اِنْ شَآءَ اللہ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآٰن، باب ما
جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب، 4 / 400، حدیث: 2884)
(2) لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ
بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔(پ26،الفتح:9)
رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرنے والے کامیاب ہیں: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے
کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا
اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ
وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی
مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں ۔(پ9،الاعراف:157)
(3) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں،پہلا ادب اپنی
آواز نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز سے بلند نہ کرو، دوسرا ادب
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں چلا کر بات نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ استاد، والدین سے جب بات کریں تو لہجہ
دھیما ہونا چاہیے چلا چلا کر بات کرنے والوں کو اللہ کریم نے گدھے کی آواز سے
تشبیہ دی اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ
اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠(۱۹)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بےشک
سب آوازوں میں بُری آواز گدھے کی آواز۔ (پ 21 ، لقمٰن:19)
حضرت علامہ مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ
علیہ اس مبارک آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و
ناپسندیدہ ہے، اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے گدھے کی آواز باوجود بلند ہونے کے مکروہ
اور وحشت انگیز ہے۔ (خزائن العرفان، ص762)
(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا
رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
شانِ نزول: جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان
میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول
اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا
رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔
یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت
سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی
اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی
زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی
زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم
ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں
حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔
(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، ۱ / 634، تفسیر عزیزی(مترجم)2 / 669، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک یہ پسند نہیں فرماتا کہ اس کے
پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی ایسے لفظ سے مخاطب کیا جائے جس
میں بے ادبی کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو، لہذا یہ عام بارگاہ نہیں ہے یہاں قدم بہت
سنبھل سنبھل کر رکھنا ہے۔
(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ
صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس
خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ26،الحجرات:5،4)
اللہ! اللہ! کیا جلالتِ شان، اور مرتبہ عالی پر اللہ رب
العزت نے اپنے محبوب کو فائز فرمایا اس آیت مبارکہ کے ایک نکتہ کی طرف غور کیا
جائے تو عقل حیران و پریشاں نظر آتی ہے۔
جن میں رُوح القُدُس بے اجازت
نہ جائیں
اُن سُرادِق کی عِصْمَت پہ
لاکھوں سلام
یہ قراٰنِ پاک کی صرف پانچ آیات اور انکی مختصر تفسیر پیش
کی گئی جن میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و ادب کا درس واضح
ہے، جبکہ پورا قراٰن نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نعت و تعظیم کے بیش
بہا موتیوں سے جگمگا رہا ہے۔
قراٰنِ کریم ہر شخص کے لئے ہدایت ہے، ہر مسلمان عاشقِ رسول
پر یہ لازم ہے کہ نبی پاک صاحبِ لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور
ادب اس طرح کرے جس طرح اللہ پاک نے تعلیم فرمایا اور صحابہ نے کیا اور اولیاء کرام
نے بیان فرمایا اور جو لوگ ادنی سی بھی بے ادبی کرے اس سے اپنا تعلق منقطع کر دے
ایسوں کی صحبت بھی چھوڑ دے اور عاشقانِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
عاشقانِ رضا کی سنتوں بھری تحریک دعوت اسلامی سے ہر دم وابستہ رہیں۔ ان شاءاللہ الکریم
اللہ کریگا ہماری نسلوں میں کوئی بے ادب پیدا نہیں ہوگا۔
سید فصیح الحسن عطاری (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی حیدرآباد
سندھ، پاکستان)
ادب وہ شے
ہے جو کسی بھی انسان کی عزت و توقیر کو واضح کر دیتا ہے۔ یعنی جس شخص کے لیے دل
میں جتنی زیادہ محبت اور عزت ہو اس کا اتنا ہی ادب کیا جاتا ہے اور اگر بات کی
جائے اس ہستی کی کہ جس کے ادب کا حکم خود ربِ کریم اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے تو
وہ اور کوئی نہیں آپ کے اور میرے آقا، مدینے والے مصطفیٰ جنابِ محمد مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس ہے آئیے ملاحظہ کرتے ہیں قراٰنِ پاک میں بارگاہِ
نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب:
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے
ایسا کلمہ بولنا جس میں معمولی سا بھی ترک ادب کا اندیشہ ہو، ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ
کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے
میں اس برے معنی کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔
(2) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ
لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے
بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ
الصلاۃ والسلام جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں
حاضر ہوجائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو، یہاں تک کہ آدمی اگر فرض نماز میں
ہو اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے یاد فرمائیں فوراً جواب دے اور حاضر خدمت ہو
اور یہ شخص کتنی ہی دیر حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے کلام کرے، بدستور نماز میں
ہے، اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں۔
(3)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
(4)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں ایسی آواز بلند
کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم و توقیر کے بد خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہو۔
(معرفت القراٰن)
(5) اِنَّ
الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ
اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں
رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے
بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)اس آیتِ مبارکہ سے سیکھا کہ جن کے دلوں میں
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کامل تعظیم ہے وہ دل اللہ کی طرف سے
تقوی کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ (صراط الجنان)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں کما حقہ حضورِ اکرم کا ادب بجا لانے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد منیب نور عطاری مدنی(فاضل جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ پاک جہاں اپنے احکامات کی پیروی کا حکم دیا ہے وہیں
اپنے حبیب کی عزت و تکریم کرنے کا، آداب مصطفوی کاحکم بھی قراٰن پاک میں ارشاد
فرمایا، اس پر عمل کرنے والوں کا میاب ٹھہرایا، چنانچہ 5 ایسے مقامات ملاحظہ ہوں:-
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے ایسا
کلمہ بولنا جس میں معمولی سا بھی ترکِ ادب ہو، ممنوع ہے۔
(2) فَلَا وَ رَبِّكَ لَا
یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا
فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵) ترجمۂ کنزالایمان: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک
اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں
اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (پ 5 ، النسآء:65)
(3)فَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ
اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی
مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں ۔(پ9،الاعراف:157)
(4)
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)
(5) وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى
اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ
اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا
مُّبِیْنًاؕ(۳۶)ترجمۂ
کنزالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ
و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ
مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا (پ 22 ، الاحزاب: 36)
اللہ پاک ہمیں اپنے اور اپنے پیارے حبیب کی پکی سچی محبت
عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)شانِ نزول :چند لوگوں نے
عیدالاضحیٰ کے دن سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کر
لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔(تفسیر صراط الجنان جلد 9 )
(2) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)شانِ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل
ہوئی وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں آواز بلند
ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو اذیت ہوتی تھی۔ (تفسیر صراط الجنان )
(3) اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں
رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے
بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)شانِ نزول: جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق
اور عمر فاروق اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہت احتیاط
لازم کر لی اور سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بہت ہی
پست آواز سے عرض و معروض کرتے۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 9 ،سورۃ الحجرات : 3)
(4) اِنَّ
الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے
باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)شانِ نزول : بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس وقت حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے ان لوگوں حجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم باہر تشریف لائے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر صراط
الجنان جلد 9 ،سورۃ الحجرات : 4)
(5) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا
حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما حضر ت اُبی بن کعب رضی
اللہُ عنہ سے قرآٰنِ مجید کی تعلیم حاصل کرنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تو
دروازے کے پاس کھڑے ہو جاتے اور ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتے (بلکہ خاموشی سے ان
کاانتظار کرتے) یہاں تک کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر تشریف لے آتے ۔حضرت اُبی
بن کعب رضی اللہُ عنہ کو حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہ طرزِ
عمل بہت برا معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: آپ نے دروازہ کیوں نہیں بجایا(تاکہ
میں فوراً باہر آجاتا اور آپ کوانتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟)حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہُ عنہما نے جواب دیا: عالِم
اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی امت میں ہوتا ہے (یعنی عالِم نبی کا
وارث ہوتا ہے) اور (چونکہ) اللہ پاک نے اپنے نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ’’ وَ لَوْ
اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘(اس لئے میں نے بھی دروازہ بجانے کی بجائے آپ کے خود ہی
تشریف لے آنے کا انتظار کیا)۔
آداب ادب کی جمع ہے اور ادب کا معنی ہے الوقوف
مع المستحسنات یعنی اچھائیوں پر مضبوطی سے قائم رہنا۔ نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اچھی باتوں کا خیال رکھنا اور ناپسندیدہ
باتوں سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے تو حضور جانِ عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم افضل المخلوقات ہیں، ایسے ہی آپ کی بارگاہ کی حاضری کے
آداب بھی تمام مخلوقات سے زیادہ ہیں اور کئی آداب خود خالق کائنات نے قراٰنِ مجید
میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پانچ آداب درج ذیل ہیں:۔
ادب نمبر(1) دورانِ
تعلم خطاب کے الفاظ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)شانِ نزول: جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان
میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول
اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا
رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔
یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت
سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی
اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی
زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی
زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم
ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں
حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/181)
اللہ پاک نے صحابہ کرام کو ان الفاظ کے بولنے سے روک دیا
جسے منافقین غلط معنی کے طور پر بولتے تھے۔
ادب نمبر(2)رسول کا
بلانا یا رسول کو ندا کرنا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ
الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)یعنی اے لوگو! میرے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم
ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو
پکارتا ہے کیونکہ جسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پکاریں اس پر جواب
دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ
میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم، توقیر
اور عاجزی و انکساری سے انہیں پکارو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی
انہیں ایسے الفاظ کے ساتھ نِدا کرنا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم نہ ہو۔یہ بھی
معلوم ہو اکہ جس نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حقیر سمجھا وہ
کافر ہے اور دنیا وآخرت میں ملعون ہے۔(ملتقطا تفسیر صراط الجنان، 6/675)
ادب نمبر(3)اللہ اور
اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا
خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر
لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و
احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم
ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک
سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ
ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی
شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو رِوایات درجِ ذیل ہیں:(1)
چند لوگوں نے عیدُالاضحیٰ کے دِن سر کارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں ۔ (2)حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان
سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
آگے نہ بڑھو۔( تفسیر صراط الجنان، 9/394) پتہ چلا کی عبادت اگرچہ اللہ پاک کی ہے
لیکن اس میں بھی رسول اللہ کی اتباع ضروری ہے۔
ادب نمبر(4)اپنی آواز
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز سے بلند نہ کرو: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے
ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان
کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
ادب نمبر(5)رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بے اجازت داخل نہ ہو۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ
النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ
حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 )
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق ایک روایت ہے کہ جب سرکارِ
دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت زینب رضی اللہُ عنہا سے نکاح کیا
اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو
کر چلے جاتے تھے۔ آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے
اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک ٹھہرے رہے۔ مکان تنگ
تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حرج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا
کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اٹھے اور ازواجِ
رضی اللہُ عَنہُنَّ کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو
اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے، تب حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا، اس
پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
آیتِ مذکور کا
خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں
یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا
کرو، ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور
آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا
کر فارغ ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل
بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے۔
بیشک میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے
چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا۔
(تفسیر صراط الجنان، 8/73)
عبدالرحیم عطاری(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
غوثِ اعظم کراچی، پاکستان)
(1)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرنے
والے کامیاب ہیں: لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ۔(پ26،الفتح:9)اس آیتِ کریمہ سے معلوم
ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و
توقیر (عزت) بے انتہا اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر
اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر(عزت) کو پہلے بیان
فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ علیہ السّلام کی تعظیم کرتے ہیں ان کے
کامیاب اور بامراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ
یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ
مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ
بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ
وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ
الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ
عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ
مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی
خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس
تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں
برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان
پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں
تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور
اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ9،الاعراف:157)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
(2)قراٰن اور تعظیم ِحبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: دنیا
کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم
کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو اپنی
تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے
جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب و احترام
کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی اور نے بنائے
ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اور اس کے دربار کے آداب تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ،
تما م بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب تعالیٰ نے نازل
فرمائے ہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد
مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ِگرامی ہے ، جن کی تعظیم و توقیر
کرنے کا خود اللہ پاک نے حکم دیا اور قراٰنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے
باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ
نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا
فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی
میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے
بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم( اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت
بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔ (پ28،المجادلۃ: 12) (بعد میں وجوب کا
حکم منسوخ ہو گیا تھا۔)
ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح
نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے سے منع فرمایا: لَا
تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)
حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بات کرتے وقت
ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کی بارگاہ میں زیادہ بلند آواز سے
کوئی بات نہ کرو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے
ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ
ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں
بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا
کیا کہو تجھے
(3)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے ادبی اللہ
پاک کی بے ادبی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے
ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک
نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ
رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس
کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی
اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے
ایک رِوایت درجِ ذیل ہیں: حضرت عائشہ رضی
اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع
کردیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: 1،
4/ 163-164، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ:1، ص426، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ:1،
ص1149-1150، ملتقطاً)
دو اہم مدنی پھول:(1)…اللہ پاک کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے ارشاد
فرمائے ہیں ۔(2)…اس آیت میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ پاک سے آگے ہونا ممکن
ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمانہ میں
ہوتا ہے یا جگہ میں، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی
ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص224-225، ملخصاً)۔
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو
دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا
تیرے شہرو کلام و بقا کی قسم
(4)آوازوں کو بھی پست رکھنے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے
ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ
ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(5)مختار نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اختیار: وَ مَا نَهٰىكُمْ
عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ
لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے
والا ہے۔(پ28،الحشر:7) اس کا ایک معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم غنیمت میں سے جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو کیونکہ وہ تمہارے لئے حلال
ہے اور جو چیز لینے سے منع کریں اس سے باز رہو اور اس کا مطالبہ نہ کرو۔ دوسرا معنی
یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہیں جو حکم دیں اس کی
اِتّباع کرو کیونکہ ہر حکم میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت
واجب ہے اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو ۔مزید فرمایا کہ اللہ پاک سے ڈرو
،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مخالفت نہ کرو اور ان کے حکم کی تعمیل
میں سستی نہ کرو، بیشک اللہ پاک اسے سخت عذاب دینے والا ہے جو رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرے۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: 7، 9 /
429، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: 7، ص1224، ملتقطاً)۔
بنایا ان کو مختار دو عالم ان
کے مولیٰ نے
خلافت ایسی ہوتی ہے نیابت اس
کو کہتے ہیں
ذوالقرنین عطاری (درجہ دورة الحدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضان مدینہ فیصل آباد پاکستان)
بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہمیت و
عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی
بارگاہ وہ مقام و مرتبہ رکھتی ہے کہ اس کے آداب خود ربِّ کریم نے اپنے کلامِ مجید
میں بیان فرمائے حتٰی کہ مؤمنين کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے گفتگو کے
آداب بھی سکھائے اور اس کے خلاف کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں بھی سنائیں۔ اللہ پاک
نے بارگاہِ نبوی کے آداب بیان کرکے یہ بات واضح کر دی یہ بارگاہ کوئی عام بارگاہ
نہیں بلکہ محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ہے لہذا ہر مؤمن پر
آداب کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
(1) نبیٔ پاک کے بلانے پر فوراً حاضر ہو جاؤ: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)حکیم
الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: آیت میں اس بات کا ادب سکھایا کہ اے حاضر رہنے والو جس
وقت تمہارے کان میں میرے محبوب کے بلانے کی آواز پہنچے تو تم جس حال میں بھی ہو
فوراً حاضر ہو جاؤ۔(سلطنتِ مصطفٰی، ص6)
(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عام
لوگوں کی طرح پکارنے کی ممانعت: قراٰن کریم میں
ہے: لَا
تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) اس میں صحابۂ کرام کو بلکہ
قیامت تک کے مسلمانوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب
سکھایا گیا ہے۔(شان حبیب الرحمن، ص115)
(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے
نہ بڑھو: الله کریم ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر صراط الجنان میں ہے اس
آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام
ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل سے اصلاً ان سے
آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کہ یہ آگے بڑھنا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان، 9/394)
(4) اپنی آوازوں کو الله کے رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے پست رکھو: رب کریم کا ارشاد
عظیم ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) تفسیر صراط الجنان میں ہے: اے ایمان والو جب نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم انکی بارگاہ میں کچھ عرض کرو
تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُنکی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ
آہستہ آہستہ پست آواز سے کہو۔(صراط الجنان، 9/397)
(5) بلند آواز سے پکارنے کی ممانعت: اللہ پاک کا ارشاد عظیم ہے: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے
حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے
بات کرتے ہو۔(پ26،الحجرات:2)
لے سانس بھی آہستہ کہ خلاف
ادب نہ ہو
کہ نازک ہے آئینہ سے طبیعت
رسول اللہ کی
قراٰنِ کریم ہمارے لیے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے جس میں ہر
ایک چیز کا بیان تفصیل کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم بیان بارگاہِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا ادب بھی ہے۔ جو اہلِ حق کی پہچان رہی ہے ۔ یہ قراٰن کا ہی درس تھا جو صحابہ کو بارگاہِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میں آواز تک بلند نہ کرنے دیتی تھی آیئے ہم قراٰن سے کچھ آداب سیکھتے ہیں۔
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں
عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیت سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و
توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی
سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ (مزید معلومات کے لیے تفسیر ِنعیمی یا
صراط الجنان کا مطالعہ کریں) ۔
(2) وَ اسْمَعُوْاؕ-: اور غور سے سنو: حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو
جاؤ تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ توجہ فرمائیں کیوں کہ دربارِ نبوت کا
یہی ادب ہے۔
(3) وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب
ہے۔(پ10،التوبۃ:61) اپنے قول یا فعل یا کسی حرکت سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک
عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے ۔
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک
دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور
تمہیں خبرنہ ہو۔(پ26،الحجرات:2) ادب یہ ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی
بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو
بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔
(5) اور ادب یہ بھی ہے کہ حضور کو ندا کرنے میں ادب کا پورا
لحاظ رکھو اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو عام القاب سے نہ پکارو جن سے ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلکہ رسول
الله، شفیع المذنبین کہو۔
ان ساری آداب پر عمل تب ہی ممکن ہے جب ہم عاشقانِ رسول کی
صحبت اختیار کریں گے۔ آپ بھی عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہو جائیے۔
اس کے ذریعہ خوفِ خدا و عشقِ مصطفی کا جام بھی ملے گا اور نیکوں کا ساتھ بھی۔