عبدالرحیم عطاری(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
غوثِ اعظم کراچی، پاکستان)
(1)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرنے
والے کامیاب ہیں: لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ۔(پ26،الفتح:9)اس آیتِ کریمہ سے معلوم
ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و
توقیر (عزت) بے انتہا اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر
اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر(عزت) کو پہلے بیان
فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ علیہ السّلام کی تعظیم کرتے ہیں ان کے
کامیاب اور بامراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ
یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ
مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ
بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ
وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ
الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ
عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ
مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی
خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس
تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں
برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان
پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں
تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور
اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ9،الاعراف:157)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
(2)قراٰن اور تعظیم ِحبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: دنیا
کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم
کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو اپنی
تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے
جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب و احترام
کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی اور نے بنائے
ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اور اس کے دربار کے آداب تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ،
تما م بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب تعالیٰ نے نازل
فرمائے ہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد
مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ِگرامی ہے ، جن کی تعظیم و توقیر
کرنے کا خود اللہ پاک نے حکم دیا اور قراٰنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے
باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ
نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا
فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی
میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے
بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم( اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت
بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔ (پ28،المجادلۃ: 12) (بعد میں وجوب کا
حکم منسوخ ہو گیا تھا۔)
ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح
نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے سے منع فرمایا: لَا
تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)
حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بات کرتے وقت
ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کی بارگاہ میں زیادہ بلند آواز سے
کوئی بات نہ کرو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے
ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ
ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں
بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا
کیا کہو تجھے
(3)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے ادبی اللہ
پاک کی بے ادبی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے
ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت میں اللہ پاک
نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ
رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس
کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی
اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے
ایک رِوایت درجِ ذیل ہیں: حضرت عائشہ رضی
اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع
کردیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: 1،
4/ 163-164، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ:1، ص426، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ:1،
ص1149-1150، ملتقطاً)
دو اہم مدنی پھول:(1)…اللہ پاک کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے ارشاد
فرمائے ہیں ۔(2)…اس آیت میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ پاک سے آگے ہونا ممکن
ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمانہ میں
ہوتا ہے یا جگہ میں، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی
ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص224-225، ملخصاً)۔
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو
دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا
تیرے شہرو کلام و بقا کی قسم
(4)آوازوں کو بھی پست رکھنے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے
ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ
ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(5)مختار نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اختیار: وَ مَا نَهٰىكُمْ
عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ
لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے
والا ہے۔(پ28،الحشر:7) اس کا ایک معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم غنیمت میں سے جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو کیونکہ وہ تمہارے لئے حلال
ہے اور جو چیز لینے سے منع کریں اس سے باز رہو اور اس کا مطالبہ نہ کرو۔ دوسرا معنی
یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہیں جو حکم دیں اس کی
اِتّباع کرو کیونکہ ہر حکم میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت
واجب ہے اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو ۔مزید فرمایا کہ اللہ پاک سے ڈرو
،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مخالفت نہ کرو اور ان کے حکم کی تعمیل
میں سستی نہ کرو، بیشک اللہ پاک اسے سخت عذاب دینے والا ہے جو رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرے۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: 7، 9 /
429، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: 7، ص1224، ملتقطاً)۔
بنایا ان کو مختار دو عالم ان
کے مولیٰ نے
خلافت ایسی ہوتی ہے نیابت اس
کو کہتے ہیں