آداب ادب کی جمع ہے اور ادب کا معنی ہے الوقوف مع المستحسنات یعنی اچھائیوں پر مضبوطی سے قائم رہنا۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اچھی باتوں کا خیال رکھنا اور ناپسندیدہ باتوں سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے تو حضور جانِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم افضل المخلوقات ہیں، ایسے ہی آپ کی بارگاہ کی حاضری کے آداب بھی تمام مخلوقات سے زیادہ ہیں اور کئی آداب خود خالق کائنات نے قراٰنِ مجید میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پانچ آداب درج ذیل ہیں:۔

ادب نمبر(1) دورانِ تعلم خطاب کے الفاظ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)شانِ نزول: جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/181)

اللہ پاک نے صحابہ کرام کو ان الفاظ کے بولنے سے روک دیا جسے منافقین غلط معنی کے طور پر بولتے تھے۔

ادب نمبر(2)رسول کا بلانا یا رسول کو ندا کرنا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)یعنی اے لوگو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ جسے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم، توقیر اور عاجزی و انکساری سے انہیں پکارو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی انہیں ایسے الفاظ کے ساتھ نِدا کرنا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم نہ ہو۔یہ بھی معلوم ہو اکہ جس نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حقیر سمجھا وہ کافر ہے اور دنیا وآخرت میں ملعون ہے۔(ملتقطا تفسیر صراط الجنان، 6/675)

ادب نمبر(3)اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو رِوایات درجِ ذیل ہیں:(1) چند لوگوں نے عیدُالاضحیٰ کے دِن سر کارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں ۔ (2)حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو۔( تفسیر صراط الجنان، 9/394) پتہ چلا کی عبادت اگرچہ اللہ پاک کی ہے لیکن اس میں بھی رسول اللہ کی اتباع ضروری ہے۔

ادب نمبر(4)اپنی آواز رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز سے بلند نہ کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

ادب نمبر(5)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بے اجازت داخل نہ ہو۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 )

اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق ایک روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت زینب رضی اللہُ عنہا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے تھے۔ آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہ گئے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک ٹھہرے رہے۔ مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حرج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اٹھے اور ازواجِ رضی اللہُ عَنہُنَّ کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے، تب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

آیتِ مذکور کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو، ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے۔ بیشک میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا۔ (تفسیر صراط الجنان، 8/73)