ادب وہ شے ہے جو کسی بھی انسان کی عزت و توقیر کو واضح کر دیتا ہے۔ یعنی جس شخص کے لیے دل میں جتنی زیادہ محبت اور عزت ہو اس کا اتنا ہی ادب کیا جاتا ہے اور اگر بات کی جائے اس ہستی کی کہ جس کے ادب کا حکم خود ربِ کریم اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے تو وہ اور کوئی نہیں آپ کے اور میرے آقا، مدینے والے مصطفیٰ جنابِ محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس ہے آئیے ملاحظہ کرتے ہیں قراٰنِ پاک میں بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب:

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے ایسا کلمہ بولنا جس میں معمولی سا بھی ترک ادب کا اندیشہ ہو، ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنی کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوجائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو، یہاں تک کہ آدمی اگر فرض نماز میں ہو اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے یاد فرمائیں فوراً جواب دے اور حاضر خدمت ہو اور یہ شخص کتنی ہی دیر حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے کلام کرے، بدستور نماز میں ہے، اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

(4)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم و توقیر کے بد خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہو۔ (معرفت القراٰن)

(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)اس آیتِ مبارکہ سے سیکھا کہ جن کے دلوں میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کامل تعظیم ہے وہ دل اللہ کی طرف سے تقوی کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ (صراط الجنان)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں کما حقہ حضورِ اکرم کا ادب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم