بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی بارگاہ وہ مقام و مرتبہ رکھتی ہے کہ اس کے آداب خود ربِّ کریم نے اپنے کلامِ مجید میں بیان فرمائے حتٰی کہ مؤمنين کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے گفتگو کے آداب بھی سکھائے اور اس کے خلاف کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں بھی سنائیں۔ اللہ پاک نے بارگاہِ نبوی کے آداب بیان کرکے یہ بات واضح کر دی یہ بارگاہ کوئی عام بارگاہ نہیں بلکہ محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ہے لہذا ہر مؤمن پر آداب کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔

(1) نبیٔ پاک کے بلانے پر فوراً حاضر ہو جاؤ: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: آیت میں اس بات کا ادب سکھایا کہ اے حاضر رہنے والو جس وقت تمہارے کان میں میرے محبوب کے بلانے کی آواز پہنچے تو تم جس حال میں بھی ہو فوراً حاضر ہو جاؤ۔(سلطنتِ مصطفٰی، ص6)

(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عام لوگوں کی طرح پکارنے کی ممانعت: قراٰن کریم میں ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) اس میں صحابۂ کرام کو بلکہ قیامت تک کے مسلمانوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب سکھایا گیا ہے۔(شان حبیب الرحمن، ص115)

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو: الله کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل سے اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کہ یہ آگے بڑھنا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔(صراط الجنان، 9/394)

(4) اپنی آوازوں کو الله کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے پست رکھو: رب کریم کا ارشاد عظیم ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) تفسیر صراط الجنان میں ہے: اے ایمان والو جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم انکی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُنکی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ آہستہ پست آواز سے کہو۔(صراط الجنان، 9/397)

(5) بلند آواز سے پکارنے کی ممانعت: اللہ پاک کا ارشاد عظیم ہے: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو۔(پ26،الحجرات:2)

لے سانس بھی آہستہ کہ خلاف ادب نہ ہو

کہ نازک ہے آئینہ سے طبیعت رسول اللہ کی