پیارے مسلمان بھائیوں! کہا جاتا ہے ”ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں کا“ کائنات کا یہ دستور ہے جتنی اہم شخصیت ہو اتنا ہی اس کا ادب کیا جاتا ہے، سب سے بڑا بے ادب شیطان ہے اس نے آدم علیہ السّلام کا ادب نہ کیا! اس پر (فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷)) کی پھٹکار ہے، ہم مرشد، استاذ، والدین کا ادب کرتے ہیں کیونکہ یہ رشد و ہدایت کے وہ موتی ہیں جن کی چمک دمک سے عالم روشن ہے یہ ہر انسان کی زندگی کی سب سے اہم شخصیات ہیں۔ مرشد نے باطن سنوارا، استاذ نے علم میں نکھارا، والدین کی وجہ سے وجود ہے ہمارا، تو لہذا جو اللہ کے محبوب ہیں، آدم و بنی آدم بلکہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے سردار ہیں، کوثر و تسنیم کے مالک ہیں، وجہ تخلیق کائنات ہیں، تمام نبیوں کے خاتم ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا کس قدر ادب ہونا چاہیے؟ اس کا اندازہ عقل انسانی کے بس کی بات نہیں! خالق کائنات نے اپنے محبوب کے ادب کی تعلیم اپنی مخلوق کو عطا فرمائی اور قراٰن میں جا بجا حضور کی تعظیم بیان فرمائی جن میں سے پانچ کا ہم ذکر کرتے ہیں:۔

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

وہی نورِ حق وہی ظلِّ ربّ ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب

نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

علماء کرام فرماتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کے نبی پاک جب بھی بلائے امتی کو فوراً بارگاہِ مصطفوی میں حاضر ہونا ضروری ہے چاہے فرض نماز میں ہی کیوں نہ ہو۔

حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُبَی بن کعب رضی اللہُ عنہ کی طرف تشریف لائے اور انہیں آواز دی ’’اے اُبَی! حضرت اُبَی رضی اللہُ عنہ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہ دیا، پھر مختصر نماز پڑھ کر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’وَعَلَیْکَ السَّلَامْ‘‘ اے اُبَی! جب میں نے تمہیں پکارا تو جواب دینے میں کونسی چیز رکاوٹ بنی۔ عرض کی: یا رسولَ اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے قراٰنِ پاک میں یہ نہیں پایا کہ’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘ عرض کی: ہاں یا رسولَ اللہ ! اِنْ شَآءَ اللہ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآٰن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب، 4 / 400، حدیث: 2884)

(2) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔(پ26،الفتح:9)

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرنے والے کامیاب ہیں: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ9،الاعراف:157)

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں،پہلا ادب اپنی آواز نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز سے بلند نہ کرو، دوسرا ادب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں چلا کر بات نہ کرو۔

اس سے معلوم ہوا کہ استاد، والدین سے جب بات کریں تو لہجہ دھیما ہونا چاہیے چلا چلا کر بات کرنے والوں کو اللہ کریم نے گدھے کی آواز سے تشبیہ دی اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠(۱۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بےشک سب آوازوں میں بُری آواز گدھے کی آواز۔ (پ 21 ، لقمٰن:19)

حضرت علامہ مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ اس مبارک آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے، اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے گدھے کی آواز باوجود بلند ہونے کے مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔ (خزائن العرفان، ص762)

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

شانِ نزول: جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، ۱ / 634، تفسیر عزیزی(مترجم)2 / 669، ملتقطاً)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک یہ پسند نہیں فرماتا کہ اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی ایسے لفظ سے مخاطب کیا جائے جس میں بے ادبی کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو، لہذا یہ عام بارگاہ نہیں ہے یہاں قدم بہت سنبھل سنبھل کر رکھنا ہے۔

(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ26،الحجرات:5،4)

اللہ! اللہ! کیا جلالتِ شان، اور مرتبہ عالی پر اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو فائز فرمایا اس آیت مبارکہ کے ایک نکتہ کی طرف غور کیا جائے تو عقل حیران و پریشاں نظر آتی ہے۔

جن میں رُوح القُدُس بے اجازت نہ جائیں

اُن سُرادِق کی عِصْمَت پہ لاکھوں سلام

یہ قراٰنِ پاک کی صرف پانچ آیات اور انکی مختصر تفسیر پیش کی گئی جن میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و ادب کا درس واضح ہے، جبکہ پورا قراٰن نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نعت و تعظیم کے بیش بہا موتیوں سے جگمگا رہا ہے۔

قراٰنِ کریم ہر شخص کے لئے ہدایت ہے، ہر مسلمان عاشقِ رسول پر یہ لازم ہے کہ نبی پاک صاحبِ لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور ادب اس طرح کرے جس طرح اللہ پاک نے تعلیم فرمایا اور صحابہ نے کیا اور اولیاء کرام نے بیان فرمایا اور جو لوگ ادنی سی بھی بے ادبی کرے اس سے اپنا تعلق منقطع کر دے ایسوں کی صحبت بھی چھوڑ دے اور عاشقانِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، عاشقانِ رضا کی سنتوں بھری تحریک دعوت اسلامی سے ہر دم وابستہ رہیں۔ ان شاءاللہ الکریم اللہ کریگا ہماری نسلوں میں کوئی بے ادب پیدا نہیں ہوگا۔