ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

یعنی آسمان کے نیچے مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اور بایزید بسطامی عليهما الرحمہ جیسے عظیم اولیا بھی سانس روک کر آتے ہیں یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے ۔ ادب، ایک قسم کا خاص اور سنجیدہ برتاؤ ہوتا ہے جو ہر چھوٹے، بڑے، جان، انجان، سب سے کیا جاتا ہے اس کی وجہ اچھی تربیت ہے۔ اسلام کے مطابق کے زندگی گزارنا اور گفتگو اور کردار میں عمدگی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ادب کی نشانی ہیں۔ جبکہ بیوقوفی، برا کلام کرنا، برے اخلاق، گالی گلوچ، ہٹ دھرمی اور ضد وغیرہ بے ادبی کے نمونے ہیں۔ ادب و احترام ہی کی بدولت انسان کو کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔

اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو عزت و شرافت، احترام و تعظیم اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا، اتنا کسی اور کو نہیں دیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل سے وجہ تخلیق کائنات، واجب الاتباع، شفیع المذنبین، رحمت اللعالمین، محسن انسانیت، ہادی و رہبر اور محبوب خدا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بادشاہ اپنے دربار کے آداب کے قوانین خود بناتے ہیں پھر جو ان قوانین پر عمل کرتا ہے اسے انعام اور جو نہیں کرتا اس کی سرزنش کرتے ہیں اور یہ قوانین صرف انسانوں پر جاری ہوتے ہیں دیگر مخلوقات پر نہیں اور جب بادشاہ دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے قوانین بھی ختم لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار، ایسا دربار ہے کہ جس کے آداب اور جس میں حاضر ہونے کے قاعدے، سلام و کلام کرنے کے طریقے، خود ربِّ کریم نے بنائے اور اپنی مخلوق کو بتائے کہ اے میرے بندو! جب اس دربار میں آؤ تو ایسے ایسے آداب کا خیال رکھنا اور خود فرمایا کہ اگر تم نے اس کے خلاف کیا تو تم کو سخت سزا دی جائے گی پھر لطف یہ کہ اس شہنشاہ نے ہم سے پردہ فرما لیا اس کی چہل پہل ہماری نگاہوں سے غائب ہو گئی مگر اس کے آداب اب تک وہی باقی، اس کا طمطراق اسی طرح برقرار، پھر اس دربار کے قوانین صرف انسانوں پر جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت کا یہ حال ہے کہ فرشتے بغیر اجازت وہاں حاضر نہ ہوسکیں، جانور سجدے کریں، بے جان کنکر اور درخت کلمہ پڑھیں، چاند، سورج اشاروں پر چلیں، اس کے اشارے سے بادل برسیں، دوسرا اشارہ پا کر بادل پھٹ جائیں غرض یہ کہ ہر عرشی، فرشی اس قاہر حکومت کے تابع ہیں۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص، 2 مطبوعہ، ضیاء القراٰن پبلیکیشنز لاہور)

قراٰنِ کریم میں جہاں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ کا بیان ہے وہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ادب و احترام کے تقاضے بجا لانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ بے شمار آیاتِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ ایمان پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنا اور تعظیم نبوی کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔

قراٰنِ کریم سے چند آداب بارگاہِ نبوی ملاحظہ فرمائیں:۔

(1)کسی کام میں حضور سے آگے نہ بڑھنا: کچھ لوگ زمانہ رسالت میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے ہی قربانی کر لیتے اور کچھ لوگ رمضان سے پہلے روزے رکھنا شروع کر دیتے، اللہ نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)

اس آیت نے ادب سکھایا کہ کوئی مسلمان اللہ کے حبیب علیہ السّلام سے کلام میں، چلنے میں غرض کسی کام میں حضور سے آگے نہ بڑھے حتی کے راستہ میں رسولُ اللہ سے آگے ہرگز نہ چلے۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص، 2)

اس آیت میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ پاک سے آگے ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمانہ میں ہوتا ہے یا جگہ میں ، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص224- 225 مخلصا)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224)

(2) حضور کی بارگاہ میں ذو معنی الفاظ استعمال کرنا: "سلطنتِ مصطفیٰ" صفحہ 5 پر ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے حضور سے تعلیم حاصل کرتے تو بعض اوقات اگر کچھ سمجھ نہ آتا تو عرض کرتے" راعنا یا رسول اللہ" یعنی حضور ہمارا لحاظ فرما دیجئے یعنی دوبارہ فرمائیں تاکہ ہم سمجھ لیں۔ یہود زبان میں یہ لفظ گستاخی تھا تو اس معنی میں استعمال کرنے لگے اور دل میں خوش ہوئے کہ ہم کو بارگاہِ رسالت میں بکواس کرنے کا موقع مل گیا۔ نیتوں سے واقف رب ہے، اس کو یہ کیسے پسند ہو سکتا تھا کہ کسی کو میرے محبوب کی جناب میں گستاخی کا موقع ملے، آیتِ کریمہ آئی اور "راعنا" کی بجائے "انظرنا" (حضور ہم پر نظر فرمائیں) کہنے کا حکم ہوا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

یاد رہے کہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (صراط الجنان، 1/ 181)

(3)حضور کی بارگاہ میں راز کی بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ کرنا: ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں مالدار صحابہ کرام علیہم الرضوان حاضر خدمت تھے عرض معروض کا سلسلہ طویل ہو گیا جس کی وجہ سے غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کچھ عرض کرنے کا موقع نہ ملا، جس کے بعد یہ آیت اتری اور صدقہ کرنے کا حکم ہوا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم( اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔ (پ28،المجادلۃ: 12)

سبحان اللہ کیا خوبصورت تعلیم ہے کہ رب کی بارگاہ میں حاضری دینی ہو یعنی نماز پڑھنی ہو تو وضو کافی مگر رب کے محبوب کی بارگاہ میں حاضری دینی ہو تو پہلے صدقہ کرو اس میں دو فائدے ہیں ایک تو غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو عرض کرنے کا موقع ملنا ہے اور دوسرا یہ کہ دل میں اس بارگاہ کا ادب بیٹھ جائے گا جو چیز کچھ خرچ اور محنت سے حاصل ہو اس کی وقعت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ یہ آیت کریمہ بعد کو منسوخ ہوگئی مگر بارگاہِ رسالت کی شان کا پتہ لگ ہی گیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص 5-6)

بعض روایتوں کے مطابق اس حکم پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور 1دینار صدقہ کرکے 10 مسائل دریافت کئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔(صراط الجنان، 10/ 49)

(4)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ عالی وہ بارگاہ ہے جہاں پر آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا۔ ایک صحابی جن کا نام حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ ہے وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں آواز بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔(صراط الجنان، 9 /397)

علما نے یہاں تک فرمایا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کے ساتھ پکارنا یعنی "یا محمد" کہنا حرام ہے۔ (صراط الجنان، 1/49)

اللہ اکبر کیسی بلند بارگاہ ہے عبادات میں غلطی ہو جائے تو "سجد سہو" "دم" "قضا" وغیرہ کی صورت میں کفارہ ہے لیکن محبوب کی بارگاہ ایسی بارگاہ کہ اگر آواز بلند ہو جائے تو ساری زندگی کے اعمال ہی ضائع۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی جناب میں سب زیادہ مقرب بارگاہ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ہے کہ جس میں بلند آواز ہونا رب نے گوارا نہ فرمایا اور زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی۔

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر ہر حال میں عمل کرنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔ (پ 22 ، الاحزاب: 36)

اس آیت کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت زید ابن حارثہ جو حضور علیہ السّلام کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضور کی خدمت میں رہتے تھے حضور نے ان کے نکاح کا پیغام حضرت زینب بنت جحش کو دیا۔ حضرت زینب بنت جحش خاندانِ قریش کی بڑی عزت والی بی بی تھی ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس کو منظور نہ کیا کیونکہ وہ قریشی اور بہت باعزت تھی زید قریشی نہ تھے نکاح میں کفو کا خیال رکھا جاتا ہے اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اس آیت کے نزول کے بعد ان سب کو راضی ہونا پڑا اور نکاح ہوگیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص 19)

اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:(1)آدمی پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت ہر حکم میں واجب ہے۔ (2)…حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم اللہ پاک کا حکم ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقابلے میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کا شانِ نزول لکھنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ پاک کی طرف سے فرض نہیں کہ فلاں سے نکاح پر خواہی نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کُفو (یعنی ہم پلہ) نہ ہو خصوصاً جبکہ عورت کی شرافت ِخاندان کَواکب ِثریا (یعنی ثریا ستاروں ) سے بھی بلند وبالاتر ہو، بایں ہمہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر اللہ پاک نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو کسی فرضِ اِلٰہ (یعنی اللہ پاک کے فرض) کے ترک پر فرمائے جاتے اور رسول کے نامِ پاک کے ساتھ اپنا نامِ اقدس بھی شامل فرمایا یعنی رسول جو بات تمہیں فرمائیں وہ اگر ہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے فرضِ قطعی ہو گئی ،مسلمانوں کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا، جو نہ مانے گا صریح گمراہ ہوجائے گا، دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتا ہے اگرچہ فی نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح و جائز امر تھا۔(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم اور آپ کے مشورے میں فرق ہے، حکم پر سب کو سر جھکانا پڑے گا اور مشورہ قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق ہو گا۔ اسی لئے یہاں : ’’ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا ‘‘ ’’یعنی جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں ۔‘‘ فرمایا گیا اور دوسری جگہ ارشاد ہوا: ’’ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ‘‘(پ4،اٰل عمران:159) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(صراط الجنان، 8/ 34- 35)

محفوظ صدا رکھنا شہا بے ادبوں سے

مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

اللہ ہمیں اپنے پیارے بندوں کا ادب اور سب محبوبوں کے محبوب، محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بار بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم