اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ذاتِ مبارکہ اور آپ کی شان اتنی ارفع و اعلی ہے کہ ربِ کریم نے قراٰنِ
مجید میں جابجا آپ کی نعت بیان فرمائی اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ آپ کی
اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے
اللہ کا حکم مانا ۔(پ5النسآء:80)اسی طرح اپنے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب و احترام کے متعلق بھی واضح اور صریح کو حکم
فرمائے۔ چنانچہ
(1)سورۂ نور آیت 63 میں فرمایا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ
بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے
پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)اس آیتِ کریمہ
کے تحت علامہ علاء الدین علی بن محمد تفسیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن عباس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے نہ پکارو
جیسے تم دوسروں کو پکارتے ہو اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو نام
سے نہ پکارو بلکہ حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کے ادب و تعظیم وتوقیر کو ملحوظ
رکھتے ہوئے یوں پکارو یا حبیب اللہ یا نبی الله یا رسول اللہ۔(تفسیرِ خازن، 3/365)
(2)اسی طرح بارگاہِ نبوت کے آداب کے متعلق اللہ پاک سورہ انفال
میں فرماتا ہے: لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ
اور رسول سے خیانت نہ کرو۔(پ9،الانفال:27) اس
آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے خیانت کا معنی یہ ہے کہ آپ کا حکم نہ ماننا یا آپ کی سنت پر عمل
نہ کرنا اور، ابن جریر نے ابن عباس سے تخریج کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خیانت سے مراد آپ کی نافرمانی اور سنت کو ترک کرنا ہے اور مزید
فرمایا کہ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے سامنے کچھ اور ظاہر کرو اور تمہارے دلوں میں کچھ اور ہو۔(تفسیر روح
المعانی، 5/257)
آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی بارگاہ میں آپ سے خیانت نہ کی
جائے اور نہ ہی آپ کے سامنے ظاہر کچھ اور کیا جائے اور دلوں میں کچھ اور ہو۔
(3)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب
بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک ایک اور مقام پر فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)اس
آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تمہیں بلائیں تو اطاعت کرو، اعراض و نافرمانی نہ کرو حتی کہ اگر فرض
نماز بھی پڑھ رہے ہو تو نماز چھوڑ کر رسولُ اللہ کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے۔
عظیم محدث حضرت سلیمان بن اشعث سجستانی روایت فرماتے ہیں کہ
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے بلایا تو میں حاضر نہ ہوا پھر میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو
آپ نے پوچھا تم کیوں نہیں آئے میں نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا فرمایا کیا
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ و رسول کے بلانے پر فوراً حاضر ہو۔
(4)بارگاہِ نبوت کی عظمت و شان کو بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک
نے ایک اور مقام پر فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن
نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 )
اس آیتِ مبارکہ کے تحت مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں اس آیت کا شانِ
نزول یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے، پھر وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور
کھانا ملنے تک وہیں بیٹھے رہتے، پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے نکلتے نہ تھے
اور اس سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اَذِیَّت ہوتی تھی، اس پر یہ
آیت نازل ہوئی۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے
کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خود ہی میرے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو،
ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی
مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ
ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو
کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے ۔ بیشک تمہارا
یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے
تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا ۔ ( روح البیان، الاحزاب،
تحت الاٰيۃ : 53 ، 7/ 213-214)
(5)بارگاہِ نبوت کے آداب بیان فرماتے ہوئے الله پاک سورہ حجرات
آیت نمبر 1 میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) حضرت مفتی احمد یار خان
فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حکم عام ہے یعنی نہ کسی بات میں اور نہ ہی کسی کام میں
اور نہ ہی کھانا تناول فرمانے میں نہ ہی اپنی عقل اور رائے کو حضور کی رائے سے
مقدم کرو۔ (شان حبیب الرحمٰن من آیات القراٰن، ص 224 ،مکتبہ اسلامیہ)
اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی قول
اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔