اللہ پاک نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت ساری شانوں سے نوازا، جن میں سے ایک شان یہ بھی عطا فرمائی کہ مسلمانوں کو بارگاہِ رسالت ماٰب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا، اور کمال تو یہ ہے کہ نہ صرف حکم ارشاد فرمایا بلکہ آدابِ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر مفصّل تربیت فرمائی ۔کوئی بھی بادشاہ و حاکم وغیرہ جب اقتدار میں آتا ہے تو اپنے آداب خود بیان کرتا ہے اور جب اقتدار جاتا ہے تو اس کے بنائے ہوئے ادب کے اصول بھی اس کے ساتھ چلے جاتے ہیں، لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان کا عالم یہ ہے کہ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں بیان فرمائے اور قیامت تک کے لیے ان قوانین کا پابند رہنے کا حکم دیا۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے بارگاہِ نبوی کے جو آداب بیان فرمائے ہیں ان میں سے پانچ مندرجہ ذیل ہیں:۔

(1) بے ادبی کے شبہ سے بھی بچو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو۔(پ1،البقرۃ:104) بارگاہِ رسالت میں جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تربیت فرما رہے ہوتے اور صحابہ کرام کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ فرماتے ” راعنا یا رسول اللہ“ یعنی یا رسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے ہمیں دوبارہ سمجھائیے ۔ لیکن یہودیوں کی لغت میں اس کا معنی بے ادبی کا تھا تو وہ اسی نیت سے بولنے لگے تو اللہ پاک نے یہ نہ فرمایا کہ مسلمانوں کی نیت ٹھیک ہے اور یہودیوں کی غلط بلکہ حکم ارشاد فرمایا کہ جس لفظ میں بے ادبی کا شک بھی ہو تو وہ لفظ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لیے بولا ہی نہ جائے۔(صراط الجنان،1/181،ملخصاً)

(2) پکارے جاٶ تو فوراً حاضر ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)یہاں مؤمنین کو بارگاہِ نبوی کا ادب سکھایا گیا ہے کہ خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں، جب بارگاہِ رسالت سے بلاوا آجائے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے پہنچو۔ اس آیت میں ”دعا“ صیغہ واحد لایا گیا کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ پاک کا بلانا ہی ہے۔(صراط الجنان،3/539، ملخصاً)

(3) عام لوگوں کی طرح مت پکارو: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)یعنی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ان کے نام کے ساتھ مت پکارو جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو نام کے ساتھ پکارتے ہو اور نہ ہی بے ادبی والے ناموں کے ساتھ پکارو بلکہ تعظیم و ادب والے القابات کے ساتھ پکارو جیسا کہ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، یَانَبِیَّ اللّٰہِ ، یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ، وغیرہ۔(صراط الجنان،6/675، ملخصاً)

(4) آگے مت بڑھو : : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کسی بات میں ،کسی کام میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔(صراط الجنان،9/394،ملخصاً)

(5) آوازیں پست رکھو : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو ۔(پ26، الحجرات:2) اس آیت میں ایمان والوں کو بارگاہِ نبوی میں کلام کرنے سے متعلق ادب سکھایا گیا ہے کہ اس بارگاہ میں جب بھی کلام کرنا ہو تو اپنی آواز کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز مبارک سے آہستہ رکھنی ہے۔ اسی لیے صحابۂ کرام بہت آہستگی سے گفتگو فرمایا کرتے تھے اور بعض صحابۂ کرام اتنا آہستہ کلام فرماتے تھے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں دوبارہ بولنے کا ارشاد فرماتے تھے۔ (صراط الجنان،9/397،ملخصاً)

بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب چونکہ تا قیامت تک کے لیے ہیں، اسی لیے ہم پر لازم ہے کہ جب کبھی اللہ پاک کے فضل و کرم سے روضۂ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر حاضری دینے کا شرف حاصل ہو تو بارگاہِ نبوی کے تمام تر آداب کو پیشِ نظر رکھا جائے اور ہر طرح کی قولی و فعلی بے ادبی سے پچا جائے کیونکہ بے ادبی سے نیکیوں کے برباد ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی بے ادبی کر بیٹھیں اور رب تعالٰی ہمارے تمام تر نیک اعمال ضائع فرما دے اور ہمیں خبر بھی نہ ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے: اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

اللہ پاک ہمیں بارگاہِ نبوی میں حاضری دینے کی سعادت بخشے اور اس بارگاہ کا خوب خوب ادب و احترام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم