(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)شانِ نزول :چند لوگوں نے عیدالاضحیٰ کے دن سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔(تفسیر صراط الجنان جلد 9 )

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)شانِ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں آواز بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔ (تفسیر صراط الجنان )

(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)شانِ نزول: جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بہت ہی پست آواز سے عرض و معروض کرتے۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 9 ،سورۃ الحجرات : 3)

(4) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)شانِ نزول : بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس وقت حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے ان لوگوں حجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لائے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر صراط الجنان جلد 9 ،سورۃ الحجرات : 4)

(5) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما حضر ت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے قرآٰنِ مجید کی تعلیم حاصل کرنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تو دروازے کے پاس کھڑے ہو جاتے اور ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتے (بلکہ خاموشی سے ان کاانتظار کرتے) یہاں تک کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر تشریف لے آتے ۔حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہ طرزِ عمل بہت برا معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: آپ نے دروازہ کیوں نہیں بجایا(تاکہ میں فوراً باہر آجاتا اور آپ کوانتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے جواب دیا: عالِم اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی امت میں ہوتا ہے (یعنی عالِم نبی کا وارث ہوتا ہے) اور (چونکہ) اللہ پاک نے اپنے نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ’’ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘(اس لئے میں نے بھی دروازہ بجانے کی بجائے آپ کے خود ہی تشریف لے آنے کا انتظار کیا)۔