قرآن کریم میں بارگاہ نبوی کے 5
آداب از بنت ظفر اقبال،جامعۃ المدینہ کھیالی گجرانوالہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں جس سے محبت کی
جائے اس کا اول حق اس کا ادب کرنا ہے حضور ﷺ کی ذات طیبہ انتہائی احترام و ادب کی
متقاضی ہےآپ کا ادب و احترام ایمان کا جز ہے جب تک آپ کی
سچی تعظیم دل میں نہ ہو اگرچہ عمر بھر عبادت و ریاضت میں گزرے سب
بے کار ہے آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور آپ کا ادب و احترام خود خالق کائنات
نے قرآن پاک میں سکھایا اس سلسلے میں چند آیات ملاحظہ ہوں۔
آیات
قرآنیہ:قرآن کریم میں اللہ پاک نے متعدد
مقامات پر اپنے پیارے نبی کے ادب و احترام کا حکم فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ
ہے:
1۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا
انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ
کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر:جب حضور ﷺ صحابہ کو کچھ تعلیم و
تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے راعنا یارسول اللہ اس کے معنی
ہم پر رعایت کریں یعنی اچھی طرح سمجھنے دیں اور یہود کی زبان میں
یہ گالی تھی چنانچہ مومنین کو اس سے منع کر دیا گیا اور کہا گیا عرض کرو انظرنا
اور پہلی بار ہی توجہ سے سنو۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام
علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کا لحاظ فرض ہے اور بالخصوص نبی الانبیاء ﷺ کی
بارگاہ کا ادب۔ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء
کرام کی جناب میں ادنیٰ گستاخی کفر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان،
البقرۃ، تحت الآیۃ: 104)
2۔ایک اور موقع پر اللہ پاک نے مومنوں کو آداب نبوی سے
خبردار کرتے ہوئے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ
نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ
فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی
النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ-(پ 22، الاحزاب:53)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ
مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے
جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ
بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق
فرمانے میں نہیں شرماتا۔
تفسیر: اس کا شان نزول کچھ یوں ہے کہ حضور
علیہ السلام نے حضرت زینب سے نکاح کیا اور ولیمہ کی عام دعوت فرمائی تو لوگ جماعت
کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے آخر میں تین صاحب رہ گئے جو
کھانے سے فارغ ہو کر گفتگو میں مصروف ہوئے اور یہ سلسلہ طویل ہوگیا، مکان کی تنگی
کے سبب اہل خانہ کو تکلیف ہوئی حضور علیہ السلام اٹھے اور حجروں میں تشریف لے گئے
اور جب دور فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے حضور
علیہ السلام پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوگئے، اس
پر یہ آیت نازل ہوئی معلوم ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں جو مقام حضور علیہ السلام کو
حاصل ہے وہ مخلوق میں سے کسی کو نہیں اور اللہ نے آپ کی بارگاہ کا ادب مسلمانوں کو
خود سکھایا کہ احکام و آداب کی مکمل رعایت
کرتے ہوئے داخلِ دربار ہو۔(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:
53)
3۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ
اِذَا دَعَاكُمْ (پ 9، الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر
حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔
تفسیر:
اس آیت میں واحد کا صیغہ استعمال
ہوا کہ حضور علیہ السلام کا بلانا اللہ کا بلانا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں بتایا گیا
کہ اس بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ جب وہاں بلایا جائے تو بلاتاخیر فوراً حاضر ہو۔
بخاری شریف میں
ہے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسجد نبوی
میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے بلایا لیکن میں حاضر نہ ہوا (نماز سے
فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کی یارسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا
تو سرکار علیہ السلام نے فرمایا: کیا اللہ نے یہ نہ فرمایا: اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ
اِذَا دَعَاكُمْ (پ 9، الانفال:24) ترجمہ: اللہ
اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب وہ تمہیں بلائیں۔(تفسیر صراط الجنان،
الانفال،تحت الآیۃ: 24)
4۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز
الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول
سے آ گے نہ بڑھو۔ اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و
احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی، اور خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والو! اللہ اور اس کے
رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم
ہے اور تمام اقوال و افعال میں اللہ سے ڈرو اور یہ ڈرنا تمہیں آگے
بڑھنے سے روکے گا۔
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت کا
شان نزول کچھ بھی ہو مگر حکم عام ہے کسی کام میں حضور علیہ السلام سے آگے ہونا منع
ہے اگر حضور علیہ السلام کے ہمراہ راستے میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے
اسی طرح اپنی رائے کو حضور علیہ السلام کی رائے سے
مقدم کرنا حرام ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 1)
5۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26،
الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو
اپنے حبیب کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں؛ پہلا یہ کہ اے ایمان والو! جب نبی علیہ
السلام تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند
نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کہو۔
دوسرا یہ کہ حضور علیہ
السلام کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام
لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ جو عرض کرنا ہو ادب و تعظیم اور توصیف و
تکریم کے کلمات عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو مثلا ً یا رسول اللہ یا نبی اللہ
کہہ کر عرض کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 02)
سیکھنے
کے مدنی پھول:یہ تمام احکام حضور ﷺ کی ظاہری
حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تاقیامت باقی رہیں گے۔ ان آیات میں ہمارے لئے یہ درس
ہے کہ محبوب علیہ السلام کی بارگاہ، احادیث، سنتوں وغیرہ کا ادب کریں، جب درس حدیث
ہو رہا ہو تو آوازوں کو پست رکھیں اگرچہ کوئی اور درس دے رہا ہو مگر کلام محبوب
خدا علیہ السلام کا ہے اسی طرح درِ اقدس پر حاضری ہو تو وہاں کی ہر چیز کے
ادب کا خیال رکھیں کہ وہ سر کے بل چلنے کی جگہ ہے سلام عرض کرنا ہو
تو دور کھڑے ہوکر پست آواز سے عرض کریں کیونکہ بغیر ان کے ادب و احترام تمام
عبادات و اعمال حبط (برباد) ہیں۔
صحابہ کرام کا ادب و احترام:صحابہ کرام اور صحابیات کا
عمل ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے، آئیے! ملاحظہ کیجیے کہ صحابہ ادب نبوی کے
لئے کیسے متحرک رہتے، چنانچہ جب حضور ﷺ نے خیبر سے واپسی کا ارادہ
فرمایا تو اونٹ قریب لایا گیا محبوب خدا ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے
کپڑے سے پردہ کرایا اور زانوئے مبارک (گھٹنے کے اوپر کی ہڈی )کو قریب کیا تا کہ آپ
رضی اللہ عنہا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جائیں مگر قربان جائیں حضرت صفیہ
کے ادب و تعظیم مصطفی ٰپر کہ آپ کے دل نے گوارا نہ کیا کہ اپنا پاؤں حضور ﷺ کے
مبارک زانو پر رکھیں، چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ تعظیم مصطفی کے پیش نظر آپ ﷺ کے زانوئے
مبارک پر گھٹنا رکھ کر سوار ہوئیں۔ (فیضان امہات المومنین،ص
297)