دنیا کے بادشاہوں کا قانون یہ ہے کہ جب وہ اپنی بادشاہت سنبھالتے تو وہ اپنی تعظیم اور دربار خاص میں اپنے آداب خود بتاتے ہیں مگر اس کائنات میں ایک ایسے بھی شہنشاہ آئے ہیں جن کااحترام اور بارگاہ میں حاضری کے آداب نہ انہوں نے خود بیان کیے اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے بلکہ ان کے احترام و توقیر کے آداب خود مالک مختار، رب ذوالجلال نے اپنے کلام میں بیان فرمایا جن میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں۔

1:حضورِ اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فورا ًآپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جاؤ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (الانفال: 24)ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

2: اللہ تعالیٰ نے بارگاہ نبوی کا ادب بیان کرتے ہوئے پارہ 26 سورۃ الحجرات،آیت 2 میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

3:ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی کریم ﷺ کو نہ پکارو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز العرفان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

4: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ( البقرۃ: 104) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے تعظیم رسول کو واضح فرمایا دیا کہ ایسی بات جس میں ادب ترک ہونے کا شبہ بھی ہو تو اس کے ساتھ بھی آپ کو نہ پکارا جائے۔

5: وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-( الاحزاب: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار ہے۔اس آیت میں بتادیا کہ نبی ﷺ کے حکم کے سامنے مومن کو اپنی جان کے معاملات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ آیت حضرت زینب کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب وہ حضرت زید سے نکاح کے لیے تیار نہیں تھی مگر حکم رسول ﷺ ملتے ہی راضی ہو گئیں۔

ان آیات کے احکام صاف واضح ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے رسول ﷺ کا ادب انتہائی محبوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے۔

ترجمہ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ( الاعراف: 157)

اس آیت میں تعظیم مصطفیٰ ﷺ بجا لانے والوں کو فلاح پانے کی بشارت دی گی کہ حقیقت میں کامیاب وہی ہے جو آقا ﷺ کی توقیر کرنے والا ہو۔