اسلام میں ادب کی بہت اہمیت ہے،قرآن و سنّت میں جگہ بہ جگہ ہمیں کھانے، پینے، سونے، اٹھنے، بات کرنے، سلام کرنے، قرآن پاک پڑھنے، نماز پڑھنے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں آج ہم ایک ایسی بارگاہ کے آداب سیکھیں گے،جس کے ادب کا حکم خود ہمارا ربّ ہمیں دیتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،الحجرات:1-2)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات کریمہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کے تین آداب سکھائے ہیں:

سورۃ الحجرات کی آیت ایک میں پہلا ادب سکھایا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو یعنی اللہ اور اس کے رسول کے قول و فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔ کوئی کام رسول اللہ ﷺ سے پہلے نہ کرو۔ ان سے آگے نہ چلو ان کی اطاعت کرو۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اللہ سے کوئی آگے کیسے بڑھ سکتا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ رسول الله ﷺ کی بے ادبی اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 225)

سورة الحجرات کی آیت 2 میں نبی کریم ﷺ کا یہ دوسرا ادب سکھا یا گیا کہ جب نبی تم سے کلام فرمائیں اور جب تم کچھ ان کی بارگاہ میں عَرْض کرو تو اپنی آواز رسول اللہ کی آواز سے دھیمی اور آہستہ رکھو۔

آیت 2 میں ہی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ کا تیسرا ادب بیان کیا گیا کہ جب ان کو ندا کرو تو ادب و تعظیم کا لحاظ رکھو۔ ان کو ایسے ندا نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو بلکہ تعظیم واحسن القاب کے سا تھ ان سے عرض کرو، جیسے: یا رسول اللہ! یا حبیب اللہ۔(تفسیر قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ:2،8/ 220)

بارگاہِ رسالت کا جو ادب ان آیات میں بیان ہوا، وہ آپ ﷺ کی ظاہری حیات سے لے کر تا قیامت تک باقی ہے، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ مبارک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ اور کچھ دورکھڑے ہو کر کریں۔ (شان حبیب الرحمن، ص 225)

سورۃ البقرۃ میں بھی ایمان والوں کو ان کا ربّ بارگاہِ نبوی کے آداب ارشاد فرماتاہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)ترجمہ کنزُ الایمان: اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں حضور ﷺ کو راعنا کہنے کی ممانعت کی گئی ہے، جب حضور ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم و تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں صحابہ کرام عَرْض کرتے:رَا عِنَا یَارَ سُوْلَ اللہ!(یعنی یَارَسُوْلَ اللہ ﷺ! ہمارے حال کی رعایت فرمائیں) یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا تھا، اس لئے اللہ پاک نے رَاعِنَا کے بجائے اُنْظُرْنَا بولنے کا حکم دیا، اس آیت مبارکہ میں ہمیں آداب نبوی کی تعلیم دی گئی ہے۔

ایسے الفاظ جن میں ہلکا سابھی ترکِ ادب ہو، نبی کریم کےلئے نہیں بولے جائیں گے۔ وَ اسْمَعُوْا بغور سنو: اس سے حکم دیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا کلام غور سے سنو تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کہ حضور ﷺ توجہ فرمائیں کیونکہ یہی ادب ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 363)

یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ اب بھی جہاں کہیں حدیث مبارکہ سننے کی سَعادت حاصل ہو تو بھر پور توجہ اور ادب سے سننی چاہیے،صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہِ رسالت کا ادب آپ ﷺ کی ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ وصال ظاہری کے بعد بھی خوب خیال رکھتے اور احتیاط کرتے،چنانچہ ایک مرتبہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں دو شخصوں کی اونچی آواز سنی تو آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا: تم کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عَرْض کیا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں،فرمایا: اگر تم مدینۂ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزاد یتا۔ ( کیونکہ مدینے والے حضور ﷺ کی بارگاہ کا خوب ادب جانتے ہیں) (تفسیر ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 2، 7/343)

پیاری اِسْلَامی بہنو! دیکھا آپ نے صحابۂ کرام بارگاہِ رسالت کا کتنا ادب بجا لاتے کہ وصال ظاہری کے بعد بھی مسجد نبوی میں اونچا بولنے کی اجازت نہ تھی،ہمیں بھی چاہیئے کہ اس عظیم بارگاہ کے آداب سیکھیں اور ان پر عمل کریں کہ اسی میں دنیا جہاں کی اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ پاک ہمیں بارگاہِ رسالت کا ادب کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔