حضور نور مجسم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں جن کے لیے اللہ پاک نے یہ پوری کائنات تخلیق فرمائی۔ دنیاوی بادشاہ و حاکم آتا ہے تو اپنی بارگاہ کے آداب خود بناتا ہے، لیکن حضور کی ذات وہ ہے کہ جن کی بارگاہ کےآداب خود رب کریم ارشادفرماتا ہے تاکہ ان آداب کو بجالانے والا دنیا و آخرت کی کامیابی و سرخروئی حاصل کرسکے۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں بارگاہ نبوی کے 5 آداب:بے شک اللہ پاک کی کتاب جو قیا مت تک کے لیے ہدایت اور نور ہے۔ہمیں بارگاہ نبوی کے آداب سکھاتی ہے۔

(1)پہلا ادب:بلانے پر فوراً حاضر ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (الانفال:23)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ یعنی کہ اے مسلمانو!سب سے پہلا ادب تو یہی ہے کہ جب بھی بلایا جائے تو فوراً حاضر ہوجاؤ اور تاخیر نہ کرو۔

(2)دوسرا ادب:حضور ﷺ کو ایک دوسرے کی طرح بالکل بھی نہ پکارو: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔یعنی کہ حضور ﷺکو عام لوگوں کی طرح نہ پکارو بلکہ بہتر سے بہترین القابات وخطابات سے پکارو مثلاً یارسول اللہ ﷺ!، یا نبی اللہ وغیرہ۔

(3) تیسرا ادب:حضور کی بارگاہ میں آواز اونچی نہ کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو۔ یعنی کہ ہمیشہ آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھا جائے اور آواز بلند نہ ہو کہ دنیا و آخرت کی بربادی و رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔

(4) چوتھا ادب:حجروں کے باہر سے نہ پکارو: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت قرآنی میں حضور ﷺ کو ان کےحجروں کے باہر سےپکارنے، آوازیں دینے کو منع کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی ذات پاک کا ادب یہ ہے کہ آپ کے گھر سے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔

(5)پانچواں ادب:رسول اللہ ﷺکے گھر بے اجازت نہ جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ (الاحزاب:53) یہ حضور ﷺکی بارگار کا مقدس ترین ادب ہے کہ جب بھی حاضر ہونے کا اراده ہوتو سب اجازت لے کر حاضر ہو جاؤ۔

درس: مذکورہ بالا آیت کریمہ سے ہمیں یہ درس ملا کہ حضور سے محبت کی ایک علامت حضور کی بارگاہ کے آداب کو بجالا نابھی ہے۔بے شک ان آداب کو بجالانا ہی کامل محبت،دنیاو دین و آخر ت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

حضور کی بارگاہ کے ادب کا واقعہ: جب اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ عظیم کے یہ عظیم الشان آداب بیان فرمائے (لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْاپنی آوازیں اونچی نہ کرو) تو حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فا روقِ اعظم اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس قدر احتیاط فرمائی کہ اللہ کوان کی یہ ادا پسند آئی اور ان کے بارے میں یہ آیت قرآنی نازل ہوئی اور یہ عظیم مژدہ سُنایا گیا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 )بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

پس صحابہ کرام کو بخشش اور بڑے عظیم ثو اب کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر ہم بھی ان آداب کو بجالائیں تو بے شک ہمیں بھی اللہ پاک کی بارگاہ سےبے شمار اکرام و انعامات کا پروانہ مل سکتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کی بارگاہ کا ادب در حقیقت اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب ہے۔