اللہ پاک نے مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کی عظمت اور تعظیم کو لازم فرمایا۔ آپ کی تعظیم و تکریم کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ارشاد باری ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و تکریم کرنی جیسی آپ کی زندگی میں واجب لازم ہے ویسے ہی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں آواز کو بلند نہیں کرنا چاہیے نہ زندگی میں اور نہ ہی وصال کے بعد۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص134)

سورۂ حجرات آیت نمبر 2: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں بارگاہ نبوی کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو ! جب نبی کریم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آوازیں ان کی آواز سے بلندنہ ہوں بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ حضور اقد س کو ندا کرتے وقت پورے ادب کا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کے نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت کے القاب کے ساتھ عرض کرو جیسے کہو: یا رسول الله، یا نبی الله، کیونکہ ترک ادب سےنیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (صراط الجنان،ص397)

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ سے متعلق اہم بات:بارگاہِ رسالت کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضہ رسول پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فقہا نے تو حکم دیا کہ جب حدیثِ پاک کا درس ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں۔(صراط الجنان،ص 403 )

الله پاک نے سورۂ حجرات میں آپ ﷺ کے ادب و احترام کی تعلیم فرمائی۔سورہ حجرات آیت نمبر1 میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اور نبی کریم ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔

اسی طرح قرآن ِکریم میں سورہ فتح میں ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ بارگاہِ نبوی میں حاضری کے وقت وہی ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے جو آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں کی جاتی تھی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اس کھونٹی کی آواز جو مسجد نبوی کے اردگر دگھروں میں گاڑی جاتی تھی اور اس میخ کی آواز جو ٹھونکی جاتی تھی سنتی تھیں انہوں نے ان کے گھروں کے پاس کہلا بھیجا کہ رسول اللہﷺ کو اذیت نہ دو۔(منہاج القبول فی آداب الرسول، ص134)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دروازے کے کواڑ اس وعید سے بچنے کے لئے اور رسول اللہ ﷺ کے ادب کے خاطر کپڑے کے بنائے ہوئے تھے۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص135)

مسجد نبوی میں بلند آواز سے بولنا ممنوع ہے:چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں بلند آواز کرنے والوں کو تنبیہ کی اور ڈانٹا۔ حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں ایک بار مسجد نبوی میں کھڑاتھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری، دیکھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں !کہا: جاؤ! ان دوشخصوں کو لے آؤ۔ جب ان دونوں کو میں ان کے پاس لے گیا توپوچھا: تم کون ہو ؟یا کہاں سے ہو؟انہوں نے کہا: طائف کے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس شہر سے ہوتے تو میں تم کو ضرور سزا دیتا اس واسطے کہ تم مسجد نبوی میں آواز بلند کرتے ہو۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،میں135)

اسی طرح بزرگانِ دین بارگاہ رسالت میں جاتے ہوئے نہایت ہی ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر خراسان یا مصر کے گھوڑے بندھے دیکھے جو آپ کو بطور ہدیہ پیش کیے گئے تھے۔ اس قدر اعلیٰ گھوڑے میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ چنانچہ میں نے عرض کی:یہ گھوڑے کتنے عمدہ ہیں!فرمایا:میں یہ سب آپ کو تحفے میں دیتا ہوں۔میں نے عرض کی:ایک گھوڑا اپنے لئے تو رکھ لیجیے۔فرمایا: مجھے اللہ پاک سے حیا آتی ہے کہ اس مبارک زمین کو اپنے گھوڑے کے قدموں تلے روندوں جس میں اس کے پیارے پیغمبر، بی بی آمنہ کے دلبر، مدینے کے تاجور ﷺ موجود ہیں یعنی آپ کا روضہ انور ہے۔(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات، ص41)

ہاں! ہاں !رہ مدینہ ہے غافل ذراتو جاگ او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ زائرین مدینہ کسی معمولی جگہ پہ نہیں جارہے مدینے کے سفر پر نکل رہے ہیں اور اے جانے والو!غفلت چھوڑو اور عشق رسول سے سر شار ہو کر جاگ کر چلو۔ یہ رہ مدینہ پاؤں سے چلنے کا راستہ نہیں خدا توفیق دے تو آنکھوں کے بل چلو! ( شرح حدائق بخشش،ص605)

خلیفہ اعلیٰ حضرت، فقیہِ اعظم حضرت علامہ یوسف محمد شریف محدث کو ٹلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں حج کرنے گیا تو مدینہ منورہ کی حاضری میں سبز سبز گنبد کے دیدار سے مشرف ہوتے وقت میں نے باب السلام کے قریب اور گنبد خضراء کے سامنے ایک سفید ریش اور انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو قبر ِانور کی جانب منہ کر کے دوزانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ مشہور و معروف عالم دین اور زبردست عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسمعیل نبہانی ہیں۔میں ان کی وجاہت اور چہرے کی نورانیت دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور گفتگو کی کوشش کی۔ وہ میری جانب متوجہ نہ ہوئے۔ میں نے ان سے کہا:میں ہندوستان سے آیا ہوں۔آپ کی کتابیں حجۃ الله علی العلمین اور جواہر البحار وغیرہ میں نے پڑھی ہیں جن سے میرے دل میں آ پ کی بڑی عقیدت ہے۔ انہوں نے یہ بات سن کر میری طرف محبت سے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ فرمایا۔ میں نے ان سے عرض کی:حضور !آپ قبرِ انورسے اتنی دور کیوں بیٹھتے ہیں؟ تو رو پڑے اور فرمانے لگے: میں اس لائق نہیں ہوں کہ قریب جاسکوں۔ (عاشقان رسول كی130 حکایت،ص149)

ان کے دیار میں تو کیسے چلے پھرے گا ؟ عطار تیری جرأت ! تو جائے گا مدینہ !

سبحان الله !ہمارے بزرگانِ دین کا ادب قربان جائیے!یہ ادب و احترام بے شک قرآن وسنت پر عمل ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی ان عظیم بارگاہوں کا ادب کرنے کا حکم دیا ہے۔

وه بارگاہ نہایت عظیم ہے۔ جب کوئی شخص حاضر بارگاہ ہونے کا ارادہ کرے تو اسی دربار کا ادب اور حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ ادنیٰ سی گستاخی تمام اعمال کو اکارت کر سکتی ہے۔اس عظیم بارگاہ میں حاضری کے وقت نیت خالص زیارت اقدس کی کرنی چاہیے کیونکہ نیت پر ہی سارے اعمال کا دارو مدار ہے۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ہادی اعظم ﷺنے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی برائی سے باز رہتے ہوئے بہ نیت ثواب وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شفا ء السقام،ص36) ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:جو قصداً اور عمداً میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ ( مشکوۃ، حدیث:2755)