قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب ازبنت غلام علی گیلانی، کھیالی گوجرانوالہ
ہمارا ایمان و
عقیدہ ہے کہ قرآن کے بیان کیے ہوئے طریقے کے مطابق ادبِ بارگاہِ نبوی جب تک نہ کیا
جائےایمان کامل و اکمل نہیں ہو سکتا۔ الله پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی قرآن میں سیرت
بیان فرمائی اور ان کی بارگاہ کے آداب بیان فرما کر ان آداب کو بجالانےکا حکم
فرمایا۔قرآن کی بے شمار آیات اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ ایمان پرنبی کریم ﷺ کی بارگاہ
کا ادب اور تعظیم ہر حال میں ملحوظ ِخاطر رکھناایمان کی سلامتی کے لیے لاز می وضروری
ہے۔
1۔ نبی ﷺ کو
ایسے نہ پکارو جیسے آپس میں مخاطب ہوتے ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26،
الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
مفسرین نے اس کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کو ندا کرو توادب
سے تکریم اور توقیرو تعظیم کے ساتھ معظم القاب سےنرم آواز کے ساتھ متواضعانہ لہجہ
میں ”یانبی الله،یا حبیب الله“ عرض کریں۔
بارگاہِ ناز میں آہستہ بول ہو نہ سب کچھ رائیگاں آہستہ
چل
امام مالک
فرماتے ہیں: تاجدارِ ر سالت ﷺکی عزت و حرمت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح حیاتِ ظاہری میں
تھی۔
2۔نبی ﷺ کے
قول و فعل میں آگے نہ بڑھنے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ
عَلِیْمٌ(۱)(پ 26،
الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ
سُنتا جانتا ہے۔
مفتی نعیم الدین مرادآ بادی رحمۃ اللہ علیہ اس
آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: یعنی تمہیں الزام ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ
قول میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا ادب کے خلاف ہے اور بارگاہِ نبوی میں نیاز مندی
و آداب لازم ہے۔
3۔ جانِ
کائنات ﷺ کوحجروں کے باہر سے پکارنےوالوں کو جاہل اور بے عقل کہا گیا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ
وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ
اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو
تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کرتے
یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے
والا مہربان ہے۔
الله پاک نےاس
آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کی عظمتِ شان کا اظہار فرمایا ہے کہ بارگاہِ رسالت مآبﷺ
میں اس طرح حجروں کے با ہر سے پکارنا نادانی وبے عقلی ہے۔ رحمۃ للعالمینﷺ کی جناب
میں کلماتِ ادب عرض کرنافرض ہے۔
4۔نبی ﷺکی
بارگاہ میں ایسے الفاظ کا استعمال ممنوع ہے جس میں ترکِ ادب کا شائبہ ہو۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ
کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لیے دردناک عذاب ہے۔
مفتی نعیم
الدین مراد آبادی فرماتے ہیں:جب حضور ﷺصحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو کبھی کبھی
وہ درمیان میں عرض کیا کرتے:راعنا یا رسول الله!یا
رسول اللہ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا
موقع دیجئے۔یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوءِ ادب کے معنی میں تھا یہودیوں نے اس نیت
سے کہنا شروع کردیا۔پھر اللہ نےیہ آیت نازل فرما کر لفظ راعنا
کہنے کی ممانعت فرمادی۔ اس کے معنی کا دوسرا لفظ انظرنا
کہنے کا حکم فرما دیا۔معلوم ہوا!انبیا علیہم السلام کی تعظیم اور ان کی جناب میں
کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے۔جس میں ترک ادب کا شبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع
اور ان کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے۔ للکفرین
میں اشارہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔
5۔اللہ نے نبیﷺ
پر ایمان لانے کے ساتھ ان کی تعظیم کا حکم فرمایا۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-( الفتح:8-9)ترجمہ
کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول
کی تعظیم و توقیرکرو۔ ان دونوں آیات میں اللہ پاک نے رسولِ کریم ﷺ کی
رسالت اور ان کے حاضر و ناظر ہونے اور ان پر ایمان لا نے کےساتھ اپنے حبیب کی
تعظیم و توقیر کا حکم فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان کے بعد حضور کی تعظیم و
تو قیر بنیادی عنصر ہے کیونکہ اس آیت میں ایمان کے بعد تعظیمِ مصطفٰے کا ذکر ہے،
اس کے بعد اعمال کا ذکر ہے۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بند گی اس تاجور
کی ہے
صحابی
رسول کا بارگاہِ نبوی کے ادب کا انداز: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں۔جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26،
الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
آ سکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وہ جیسا کہ ادب کرتے تھےیارانِ
محمد