حضورِ اقدس ﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ
اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے
کے ساتھ پیش آتے ہیں،حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔اس سلسلے میں
کچھ اصول و آداب مقرر کئے گئے ہیں۔
(1)تعظیمِ مصطفٰے کاحکم: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-(پ26،
الفتح: 8-9)ترجمہ
کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول
کی تعظیم و توقیرکرو۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ”تمہید
الایمان “میں زیرِ آیتِ بالا فرماتے ہیں: مسلمانو!
دیکھو دین ِ اسلام بھیجنے، قرآنِ مجید اتارنے کامقصود ہی تمہارا مولیٰ پاک تین
باتیں بتاتاہے:اوّل یہ کہ اﷲ و رسول ﷺ پر ایمان لائیں۔ دوئم یہ کہ رسول اﷲ ﷺ کی
تعظیم کریں۔ سوئم یہ کہ اﷲ پاک کی عبادت میں رہیں۔
مسلمانو!اِن
تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب دیکھو،سب میں پہلے ایمان کو ذکر فرمایا اور سب میں
پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیبﷺ کی تعظیم کو،اس لئے کہ بغیر
ایمان،تعظیم کارآمد نہیں۔ بہتیرے ہیں کہ نبی کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفعِ
اعتراضاتِ کافران ِ لئیم میں تصنیفیں کرچکے، ليکچر دے چکے، مگر جبکہ ایمان نہ لائے
کچھ مفیدنہیں، کہ ظاہری تعظیم ہوئی، دل میں حضورِ اقدس کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو ر
ایمان لاتے۔ پھر جب تک نبی کریم ﷺ کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھرعبادتِ الٰہی میں
گزرے، سب بے کارومردودہے۔(تمہیدِ ایمان، ص112)
حضورِ اقدس، نورِ مجسم ﷺ کی امت پر واجب ہے کہ وہ آپ کی
ہرحال میں تعظیم بجالائیں، آپ کی ظاہری حیات ہو
یا وصال کے بعدکا زمانہ۔ اس لئے کہ جب دلوں میں تعظیم و توقیرِ مصطفٰے بڑھے گی تو
اتنا ہی نورِ ایمان قلوبِ مومنین میں زیادہ ہوگا۔ (تفسیرروح البیان، 7/216)
(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ
وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26،
الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ
سُنتا جانتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق تفسیر صراطُ الجنان میں ہے:اے
ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں آگے نہ
بڑھنا۔ اس آیتِ مبارکہ کے پسِ منظر میں دو روایات پیشِ نظر ہیں:
روایت1: چند لوگوں نے عیدُ الاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم
ﷺ سے پہلے قربانی کرلی، تو انہیں دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا گیا۔
روایت2:
حضرت عائشہ رضی اللہُ
عنہا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع
کردیتے تھے۔ انہیں حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی ﷺ سے آگے نہ بڑھو۔
(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ
فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی
آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا
کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے
عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:
یارسول اللہ! اللہ کی قسم ! آئندہ میں آپ کی بارگاہ میں سرگوشی کے انداز میں بات
کروں گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ
کی بارگاہ میں آہستہ بات کرتے حتٰی کہ بعض اوقات حضور اکرم ﷺ کو بات سمجھنے کے لئے
دوبارہ پوچھنا پڑتا (کہ کیا کہتے ہو؟)
آسکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وہ جیسا کہ ادب کرتے تھے
یارانِ محمد
(4) اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 )بے شک وہ
جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری
کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
شانِ نزول: جب سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے
احتیاط کرلی تو اُن حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: تمام عبادات
بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اَقدس ﷺ کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔
اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پرکھ لئے ہیں، تو
جو انہیں معاذاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔ حضرت ثابت رضی اللہُ عنہ نے اپنی معذوری
کے باوجود اپنے اوپر یہ لازم کر لیا تھا کہ وہ کبھی نبیِ اکرم ﷺ کی آواز پر اپنی
آواز بلند نہیں کریں گے۔
(5): اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ
صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4)
ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور
اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
شانِ نزول: بنو
تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے، اُس وقت حضورِ اکرم
ﷺ آرام فرمارہے تھے۔ اُن لوگوں نے حجروں کے باہر سے پکارنا شروع کردیا اور حضورِ
اکرم ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی اور
رسولِ کریم ﷺ کی شانِ جلالت کا بیان فرمایا گیا کہ سیدُ المرسلین ﷺ کی بارگاہِ
اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔(تفسیر مدارک، ص 1151 ملخصا)
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا (اور اگر وہ صبر کرتے): اس آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے کہ
انہیں رسولِ کریم ﷺ کو پکارنے کے بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے تھا، تاکہ حضورِ
اقدس ﷺ خود ہی مقدس حجرے سے باہر تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش
کرتے۔ جن سے بے ادبی سرزد ہوئی وہ توبہ کریں۔ تو اللہ پاک مہربان اور بخشنے والا
ہے۔ (تفسیرِ خازن، 4/166) اکابرین کی بارگاہ کا ادب کرنا بندے کو بلند درجات تک
پہنچاتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔ (صراط الجنان)