حضور ﷺ کی بارگاہ میں اگر قرب چاہیے،رب کریم کی رضا چاہئے ہو تو حضور کی بارگاہ کا ادب بہت ضروری ہے جو حضور کی بارگاہ کا جتنا ادب کرے گا رب کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یہ وہ دربار ہے جس کا اتنا ادب ہےکہ اس بارگاہ کا ادب رب کریم خود قرآنِ پاک میں سکھاتا ہے۔

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

حضور ﷺ کی ذاتِ پاک مرکزِ ایمان ہے۔اللہ پاک کی نگاہِ قدرت کا مرکز ہے،یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی حضور کا ذکر فرمایا نہایت ادب و احترام سے فرمایا۔کبھی حضور کے اقوال و افعال کا ذکر فرماتا ہے۔کبھی حضور ﷺ کی عظمت و بلندی کا ذکر فرماتا ہے۔

1-حضور کے ادب کی سب سے بڑی دلیل: حضور ﷺ کے ادب و احترام کی سب سے بڑی دلیل یہ بیان کی گئی کہ اللہ پاک نے اپنے کلام میں جن انبیائے کرام کے ساتھ کلام کا ذکر فرمایا وہاں ان کے نام سے مخاطب فرمایا۔ کہیں یٰدَاوٗدُ فرمایا، کہیں یٰمُوْسٰىفر مایا،کہیں یٰۤاِبْرٰهِیْم فرمایا۔ لیکن حضور ﷺ کو کبھی یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر مخاطب فرمایا، کبھی یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ کبھی یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُسے مخاطب فرمایا۔اعلیٰ سے اعلیٰ القاب سے مخاطب فرمایا۔

القاب سے پکارنے کی وجہ: مفسرین فرماتے ہیں کہ نام سے نہ پکارنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں:(1) جب کسی کو حد سے زیادہ محبت دینی ہو تو القاب سے بلاتے ہیں۔(2)جب کبھی کسی کو حد درجے کی عزت دینی ہو تو القاب سے بلایا جاتا ہے۔

اللہ نے پورے قرآن میں نبی کریم ﷺ کو القابات سے پکار کر بتا دیا کہ کسی کو خدا کی ساری خدائی میں عزت دینی ہو تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باباﷺ سے بڑھ کر کوئی عزت کے لائق نہیں اور کسی سے محبت کرنی ہو تو رب کے حبیب ﷺ سے بڑھ کر کوئی محبت کے لائق نہیں۔

خلق سے اولیاء اولیاء سے رسل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارانبی

ہم تو ہم ہیں سرِ حشر دیکھو گے تم ہو گانبیوں کا نعرہ ہمارا نبی

2-ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کر و حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ فرض ہےاور جس لفظ سے ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

(وَ اسْمَعُوْاؕ-) یعنی حضور پر نور ﷺ کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضورﷺ توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (اے ایمان والو،ص 1)

3- ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷)(پ28،الحشر: 7)ترجمہ کنز العرفان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، اس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک الله کا عذاب سخت ہے۔

4 -ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ9، الانفال: 24) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

تفسیر: اس آیت میں”دَعَا “کا اس لیے ذکر کیا گیا کہ حضور سید المرسلین ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب حضور ﷺ کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے چاہے جس بھی کام میں مصروف ہو۔ (اے ایمان والو، ص 64)

5- ارشاد خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ کے دو عظیم آداب سکھائیں ہیں۔

پہلا ادب یہ کہ اے ایمان والو! جب نبی کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے آہستہ کرو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو ندا کرتے ہوئے ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو اس طرح ہرگزنہ پکا رو بلکہ جو عرض کرنا ہو نہایت تعظیم و توصیف کے کلمات اور عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو:یا رسول الله!یا نبی اللہ!(اے ایمان والو،ص 109)

آیت لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال:

افضل البشر بعد از انبیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حال:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت نازل ہوئی لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ میں نے عرض کی:یارسول اللہ!اللہ پاک کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کروں گا۔ ( کنزالعمال، 1 /214، الجزء الثانی، الحدیث: 4604)

مرادِ رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال:اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور اکرم ﷺ کو بات سمجھنے کے لیے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟(ترمذی،5/177)

ان تمام آیات کے پیشِ نظر ہی گو یا امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تیرے شہر و کلام وبقا کی قسم

ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

رب کریم ہمیں اپنے حبیب کا وفادار رکھے،حضور کے در کی غلامی نصیب فرمائے اور حضورﷺ کا ادب کرنے والی بنائے۔ آمین ثم آمین