نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں نہایت ادب کی ضرورت ہے۔حضور کا نامِ پاک کمالِ تعظیم وتکریم کے ساتھ لینا چاہیے اور نامِ پاک لیتے وقت خوف و خشیت،عجز و انکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرنا چاہیے۔عام بادشاہ،افسر،عہدِ دار اپنے محل، جگہ،ادارے کے آداب خود بیان کرتے ہیں لیکن قربان جائیے شانِ مصطفٰے پر کہ آپ کے دربار کے آداب خود ربِّ کریم قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:رب کریم فرماتا ہے:

1-آیتِ مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۲۴)(پ9، الانفال: 24) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور یہ کہ اسی کی طرف تمہیں اٹھا یا جائے گا۔

تفسیر: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو اور آپ ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔

2-آیتِ مبارکہ: رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26،الحجرات:1)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اوراللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسول ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔

3-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ، 26، الحجرات:2)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آوار سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر: اس آیت میں رب کریم نے اپنے حبیبﷺ کے دو آداب سکھائے ہیں:

پہلا ادب یہ ہے کہ جب تم سے نبی کریم ﷺکلام کریں یاتم اس کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو کیونکہ ترکِ ادب نیکیوں کی بربادی کا باعث ہے۔

4-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (پ26،الفتح:9)ترجمہ کنز العرفان: تا کہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔

تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور کی تعظیم اور تو قیر انتہائی مطلوب اور بے انتہا اہمیت کی حاصل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب کی تعظیم و توقیر کو مقدم فرمایا ہے۔

5-آیتِ مبارکہ:رب فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) (پ26،الحجرات:3)ترجمہ کنز العرفان: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پر ہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

تفسیر: اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بہت سے صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی۔الله پاک نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے دل تقویٰ کے لیے پرکھ لیے ہیں جو انہیں معاذ الله فاسق مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

آداب کو بجالانے کا درس: ہمیں چاہیے کہ آپ کی وفات ِظاہری کے بعد بھی ایسا ہی ادب و احترام کریں۔ ادب آتا ہے تو محبت آتی ہے جس کا احترام،ادب،تعظیم اور وقار دل کے اندر نہ ہو اس سے محبت کیسے کی جاسکتی ہے !محبت کی ہی اس سے جاتی ہے جس کی تعظیم اور ادب دل میں موجود ہو۔اس لیے جب ہمیں اپنے نبی ﷺ سے محبت ہے تو ان کی تعظیم، ادب،احترام بدرجہ اولی ہم پر فرض ہے۔ اس لیے جب بھی پیارے پیارے آقا ﷺ کا نام لیا جائے تو اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لیا جائے۔

واقعہ:ایک دن حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی چھت کے پرنالے کے نیچے سے گزرے۔اتفاق سے اس چھت پر مرغ ذبح کیے گئے تھے۔ اس کے خون کے چند قطرے امیرالمومنین کے لباس پر پڑے۔ چنانچہ آپ نے پرنالے کو اکھاڑ دینے کا حکم دیا۔ آپ گھر آئے، لباس بدلا اور مسجد میں چلے گئے۔ نماز پڑھی گئی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے اور عرض کی:اے امیر المومنین!اللہ کی قسم!جس پرنالے کو آپ نے اکھاڑ دیا ہے یہ حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے لگایا تھا تو امیر المومنین پر یشان ہوگئے اور فرمایا:اے عباس!تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے پیر میرے کندھے پر رکھ کر اس پر نالے کو اسی طرح لگا دو جسے رسول ﷺ نے لگایا تھا۔ چنانچہ آپ کی درخواست پر عمل کیا گیا۔

یہ تھا صحابہ کرام کا حضور ﷺ کی تعظیم کرنے کا انداز! ہمیں بھی اسی طرح ادب و احترام کرنا چاہیے۔