ادب وہ شے ہے جو نصیب بدل دیتی ہے۔ہر بارگاہ کا ایک ادب ہوتا ہے، اس کو بجالانے والوں اور اس کے خلاف کرنے والوں کا حال جدا جدا ہوتا ہے۔ کہیں موسیٰ علیہ اسلام کا ادب کرنے والے کا فرجادوگر مسلمان ہو جاتے ہیں تو کہیں جناب آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی وجہ سے مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت، عابد و موحد،ابلیس و ملعون ٹھہرتا ہے۔ تو کیا مقام ہوگا اس بارگاہ کا جو تمام نبیوں علیہم السلام کے سردار اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔

استاذ کی بارگاہ کا ادب شاگرد بتائے، پیر کی بارگاہ کا ادب مرید سمجھائے اور (الله الله کہ) مصطفٰے ﷺکی بارگاہ کا ادب خدا بیان فرمائے۔ (شرح حدائقِ بخشش،ص 195)

(1)چنانچہ حضورﷺ صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے عرض کرتے:رَاعِنَا یَارَسُولَ اللّٰه! یعنی ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ اب یہودیوں کی لغت میں” راعنا“بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی نیت سے کہنا شروع کر دیا،لہٰذا رب کریم نے اپنے حبیبﷺ کی بارگاہ کا ادب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ: 104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

معلوم ہوا کہ رب کریم کو حضور ﷺ کا ادب کتنا ملحوظ ہے کہ جس لفظ کے ایک معنی میں بے ادبی ہوئی اسے کہنے سے اپنے کلام پاک میں منع فرما دیا۔

(2)اور ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:02) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ سبحان الله ! خدا کو اپنے حبیب ﷺسے کسی کی آواز بھی اونچی پسند نہیں۔

حاضر ہوئے جبریل امیں بھی تو ادب سے نازل ہوا قرآن بھی تو بے صوت و صدا تھا

(شرح حدائق بخشش،ص 339)

(3)اور فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔حضور ﷺ جب بھی بلائیں تو ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضورﷺ بلائیں اور بندہ نماز میں ہو تو بھی فورا ًحاضر ہو جائے اور اس سے نماز بھی فاسد نہ ہوگی کہ حضور ﷺ کا بلا نارب ہی کا بلانا ہے۔

مصطفی و ایں چنیں سوء الادب ایں قدر ایمنِ شدید از اخذِرب

(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس لئے یا محمد کہنے کی اجازت نہیں۔ ثابت ہوا کہ ”یا محمد!، یااحمد!، یا ابنِ عبدالله!“ یا اے بھائی ! اے باپ! وغیرہ خطابات سے پکارنا حرام ہے۔ بلکہ یا رسول اللہ !یا حبیب اللہ !وغیرہ القاب سے پکارو۔ (شان حبیب الرحمن، ص 162)

(5)حضور ﷺ کے گھر ایک تقریب کے موقع پر فارغ ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا بیٹھے رہنا الله پاک کو پسند نہ آیا کیونکہ یہ بات حضورﷺ کیلئے باعث تکلیف تھی اور وہ حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ(الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔

ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا

الله پاک ہمیں حضور جانِ عالم ﷺ کا سچاعشق وادب نصیب فرمائے اور ہمارے حق میں یہ دعا قبول فرمائے۔ آمین

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور ہم سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو