جو لوگ سید المرسلین ﷺ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں انہیں بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔آپ کی بارگاہ کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ کسی کام میں حضور سے آگے ہونا منع ہے۔ اگر حضور کے ہمراہ ر استے میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگرخادم کی حیثیت سے یاکسی ضرورت سے اجازت پا کر چلنا منع نہیں۔ اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔رسولِ کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابرہے۔ تاہم عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضور کاادب دل کا تقویٰ ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اےایمان والو!الله پاک اور اس کے رسول کریم ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اقوال و افعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگرتم اللہ پاک سےڈرو گےتو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکےگا اور ویسے بھی اللہ پاک کی یہ شان ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اورتمام افعال کو جانتا ہےاور جس کی ایسی شان ہے اس کاحق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیتِ مبارکہ میں بھی اللہ پاک نےایمان والوں کواپنے حبیب کے دو عظیم آداب سکھا ئے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ اےایمان والو! جب نبی کریمﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کروتو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو۔ بلکہ جو عرض کرنا ہےوہ آہستہ اورپست آواز سے کرو۔

دوسر اادب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺکو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھواور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لےکر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں عرض کرنا ہو تو ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو۔جیسے یوں کہو:یا رسول اللہ،یا نبی اللہ، کیونکہ ترکِ ادب سےنیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔جب یہ آیت ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ “نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما اور کچھ دیگر صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی اور سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمتِ اقدس میں بہت ہی پست آواز میں عرض معر وض کرتے۔ ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اوران کے عمل کو سر اہتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:بےشک جو لوگ ادب اور تعظیم کے طور پر الله کے رسولﷺ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ پاک نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا۔ (اور اس میں موجودپرہیز گاری کو ظاہرفرما دیا) ہے۔ ان کے لیے آخرت میں بخشش اور بڑ اثواب ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

بنو تمیم کے چند لوگ دو پہر کے وقت رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے۔ ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضور کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایا گیا کہ سید المرسلینﷺ کی بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اوربے عقلی ہے۔