قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺکے حوالے سے ہمیں آداب سکھائےکہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں کون سے آداب ملحوظ رکھنے چاہئیں۔

1-آیت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

اس آیت میں اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے اور اللہ سے ڈرو۔(صراط الجنان)

2-آیت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

پیارے آقاﷺ کی بارگاہ میں جو عرض کرنا ہوآہستہ عرض کرو اور حضور کوندا کرنے میں ادب کا لحاظ رکھو۔(صراط الجنان)

3-آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

جو لوگ ادب و تعظیم کے طور پر حضور ﷺکی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا گیا ہے۔ (صراط الجنان)

4-آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

رسول کریمﷺ کی جلالت شان کو بیان فرمایا گیا کہ حضور کی بارگاہ میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔(صراط الجنان)

5-آیت: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت میں صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ حضور ﷺکو پکارنے کی بجائےصبر اورا نتظار کرنا چاہیے تھا۔ اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگروہ توبہ کریں تو اللہ بخشنےوالا ہے۔(صراط الجنان)

حضورﷺ کے دربار کے آداب اللہ نے بنائے اور اللہ نے ہی سکھائے ہیں اوریہ آداب جنوں،انسانوں، فرشتوں سب پر جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے ہیں۔حضور کی بارگاہ میں آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ ادب ہی بلند درجات تک پہنچاتا اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔

واقعہ: حضرت امام مالک رحمۃ الله علیہ درسِ حدیث دے رہے تھے کہ بچھو نے آپ کو16 ڈنک مارے۔درد کی شدت سے مبارک چہرہ پیلا پڑ گیا مگر درس حدیث جاری رکھا اور پہلو تک نہ بدلا۔جب درس حدیث ختم ہوا تو عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی: میں نے آپ میں عجیب بات دیکھی! اس میں کیا حکمت تھی؟ فرمایا: میں نے حدیث رسول کی تعظیم کی بنا پر صبر کیا۔ ( الشفا)