قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب از بنتِ امجد وڑائچ، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
حضرت محمدﷺ کی
ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ اللہ پاک کے بندے اور رسول ہیں۔تاہم اس کا مطلب
ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ
بھی وہی انداز اختیار کریں۔
ارشاد
ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)
(الحجرات:1 )ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اللہ
سے ڈرو اللہ سب کچھ سننے اور جانے والا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے
سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب ہے کہ حضور کا احترام ملحوظ ہے اور یہ بھی
مطلب ہو سکتا ہے کہ جو حضور کا احترام نہیں کرتا وہ الله پاک کا احترام نہیں کرتا۔
سورۂ حجرات کی
ابتدائی آیات میں نبی ﷺ سے آگے بڑھنے،بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے
کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلا شبہ حضور اکرم ﷺ کا احترام
اور مقام، مال و دولت، والدین، اولاد گو یاہر شے سے بڑھ کر ہے۔ ادب، آداب کے اہتمام
کے حوالے سے ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا
انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ2،البقرۃ:104)
ترجمہ: اے لوگو !جو ایمان لائے ہو را عنا نہ کہا کروبلکہ
انظرنا کہو اور توجہ سے بات سنویہ کافر تو عذاب
الیم کے مستحق ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ“ نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ! اللہ پاک
کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنز العمال،1/214)
حضرت عبد اللہ
بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسول کریم ﷺکی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی
کہ بعض اوقات خود حضور اکرم ﷺکوسمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟
(ترمذی، 5/177)
ان
آداب کو بجالانے کا درس:توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا
ہے جن میں ادب مصطفےٰ ہوتا ہے یعنی ادبِ مصطفٰے کا صلہ نور توحیدسے ملتا ہے۔ بے ادبی
کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحیدہے۔ گویا یہ بات واقع ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحیدکو
سمجھنا ہو وہ حضور کے آداب کو اپنا لے۔جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے
ہیں وہی انوارالٰہی کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ” ادب مصطفیٰ “اور سب سے بڑا کفر بے
ادبی مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اسی درس کو اپنائیے، اس
سے سارے اعمال صالحہ مقبول اور نور بن جائیں گئے۔ اللہ پاک ہمیں ایمان کے اس اصلی جوہر کو پانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین
ﷺ