ہمیں ہر روز کسی نہ کسی بلند رتبہ شخصیت کے سامنےحاضری کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس شخصیت کے شایان شان حاضری کے آداب بھی ملحوظ خاطر رکھنے ہوتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دیگر بھی ہستیاں جن سے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ملنا ہوتا ہے ان کے آداب اور حقوق کو مدنظر رکھنا ہمارےلیے ضروری ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی، محبوب مدنی، محمد عربی ﷺ کی بار گا عز و جاہ کی بابرکت اور مقدس حاضری کے بھی آداب ہیں جو رب کریم نے ہی بنائے اور خود اسی نے سکھائے۔ اور یہ آداب انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ جنوں انسانوں اور فرشتوں سب پر جاری ہیں اور کسی خاص وقت تک مخصوص نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری ہوئے۔ رب کریم اپنے لاریب کلام کےپارہ 26 سورہ حجرات کی آیات میں اپنے محبوب کی امت کو بارگاہ محبوب میں حاضری کے آداب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے:

پہلا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو مگریہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں کسی بھی کام میں حضور سے آگے ہونا منع ہے۔

علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں:علمائے کرام چونکہ انبیائے کرام کے وارث ہیں اس لئے ان سے آگے بڑھنا بھی منع ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے مجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سےآگے چلتے دیکھا تو ارشادفرمایا: اے ابو در داء! کیا تم اس کے آگے چلتے ہو جو تم میں بلکہ ساری دنیا سے افضل ہے۔

دوسرا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

وضاحت: اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو حبیبِ کریم ﷺ کے 2 عظیم آداب سکھائے گئے۔

پہلا یہ کہ جب تم سے نبی ﷺکلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو توتم پر لازم ہےکہ تمہاری آوازان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہو وہ پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب یہ کہ حضور ﷺ کو ندا کرنے میں ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو۔ جیسے یوں کہو:یارسول اللہ!،یانبی اللہ! کیونکہ ترکِ ادب کے سبب نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔(تفسیر سورهٔ حجرات، 5/6)

تیسرا ادب: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ:اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سر کار دو عالم ﷺ کی خدمت مبارکہ میں بہت ہی پست آواز سے عرض و معروض کرتے تو یہ آیت کریمہ صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی میں نازل ہوئی۔

تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضور اقدسﷺ کی تعظیم دل کا تقوی ٰہے۔اللہ پاک نے صحابہ کرام کے دل پرہیز نگاری کیلئے پرکھ لئے ہیں تو جو معاذ اللہ انہیں فاسق کہے وہ اس آیت ِمبارکہ کا منکر ہے۔

چوتھا ادب: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت حضور کی خدمت میں پہنچے۔اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے۔ ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضور کو پکارنا شروع کر دیا توحضور باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی اور حضور ﷺ کی جلالت شان کو بیان فرمایا کیا کہ ان کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

پانچواں ادب: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں رسولِ کریم ﷺ کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہیے تھا یہاں تک کہ حضور خود ہی مقدس حجرے سے باہر تشریف لے آتے۔ اس کے بعد یہ اپنی عرض پیش کرتے تویہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک انہیں بخشنے والا مہر بانی فرمانے والا ہے۔

واقعہ:حضرت سلیمان بن حرب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ایک دن حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیثِ مبارکہ بیان کی تو ایک شخص کسی چیز کے بارے میں کلام کرنے لگ گیا۔ اس پر حماد رحمۃ اللہ علیہ غضبناک ہوئے اور کہا:اللہ پاک فرماتا ہے: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمہ کنز العرفان:اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور میں کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا، جبکہ تم کلام کر رہے ہو!یعنی آواز اگرچہ میری ہے لیکن کلام تو حضور کا ہے۔ پھر تم اس کلام کو سنتے ہوئے کیوں گفتگو کر رہے ہو؟

اللہ پاک ہمیں بھی پیارے حبیب کے صدقے اپنے حبیب ﷺ کا فرمانبردار اور با ادب بنائے۔آمین