قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب از بنتِ سلطان،خوشبوئے عطار واہ کینٹ
ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کرده می آید جنید و بایزید
ایں جا
اس بارگاہ میں
جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے بڑے بڑے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اس بارگاہ کا
ادب ہی ایسا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بارگاہ محبوبِ رب کریم ﷺکی ہے۔ یہاں تو زور سے
سانس لینا بھی بے ادبی ہے۔ عشق کا دعویٰ کرنے والا بغیر ادب کے اپنے قول میں کیسے صادق
ہو سکتا ہے! محبت کی کہانی میں جب محبوب کا لقاء آجاتا ہے تو پھر محب کچھ نہیں کہتا،
کوئی عرض نہیں کرتا، بس دور کھڑا رو رہا ہوتا ہے۔ ارے جہاں یار کا جلوہ ہو وہاں عرضیں
نہیں کی جاتیں۔ وہاں تو نگاہیں جھکی ہوئی سب جان لیتی ہیں۔ یہ تو وہ بارگاہ ہے کہ رب
کریم خود اس کے آداب سکھاتا ہے۔
(1)فرمایا: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2 ) ترجمہ کنزالعرفان: اپنی آوازیں نبی
کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
محبوب کی آواز
سے اپنی آواز پست رکھو۔ وہ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے
کہ تمہاری آواز میرے حبیب سے اونچی نہ ہو بلکہ ایسے عرض کرو کہ جیسے عرض کرنے والے
کو زیب دیتا ہے۔
(2) اور فرمایا:
وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات: 02)ترجمہ کنز العرفان: ان کے
حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات
کرتے ہو۔ اور یہ ادب سکھایا کہ ان کے حضور پورا پورا لحاظ رکھو اور آپس میں جیسےایک
دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو کہ آپ ﷺ کی شان میں بے ادبی ہو۔ بلکہ
جو عرض کرنا ہو یوں کہو:یا رسول الله، یانبی اللہ۔ ان کی تعظیم و توقیر کا خیال رکھو۔
(تفسیر صراط الجنان، الحجرات:2ملتقطاً)
(3)فرمایا: لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ:
104) ترجمہ کنز
الایمان: راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر
نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔
صحابہ کرام علیہم
الرضوان کو جب پیارے آقا ﷺ تلقین ونصيحت فرماتے تو کبھی صحابہ کرام عرض کرتے:
را عنا یار سول الله یعنی یا رسول اللہﷺ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے تو یہودی
زبان دباکر”را عینا “ کہتے جس کے معنی چرواہا کے ہیں۔ جب مسلمان
ناراض ہوتے تو وہ کہتے کہ تم بھی تو یہی کہتے ہو اس پر وہ رنجیدہ ہو کر بارگاہ عالی
میں حاضر ہوتے تو رب کریم نے یہ آیت نازل فرمادی کے را عنا نہ
کہو بلکہ” انظرنا“ کہو اور پہلے سے ہی بغور سنو۔
(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ
بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور:
63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک
دوسرے کو پکارتا ہے۔ حضور علیہ السلام جب کسی کو پکاریں تو اس پر جواب دینا اور عمل
کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ تو اے لوگو! میرے حبیب کے پکارنے
کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو کہ جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(اے ایمان
والو!، ص 69 ملتقطاً)
(5)فرمایا: وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ
لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ (الاحزاب:53)
ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ
ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ الله پاک بارگا ہ رسالت کا کمال ادب سکھاتے
ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں ایذا نہ دینا، ان کے وصال کے بعد بھی ان کی ازواج مطہرات باقیوں
کیلئے حرام ہیں۔ آپ کے وصال ظاہری کے بعد بھی امتیوں کو چاہئے کہ ایسے کام نہ کریں
کہ جس سے قلب مقدس رنجیدہ ہو کہ نبی ﷺاپنی امت کے ہر حال سے واقف ہیں اور آپ ہمیں ہمارے
سب سے قریبی دوست سے بھی بڑھ کر جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ادب میں یہ بھی ہے کہ آپ سے
منسوب ہر چیز کا ادب کیا جائے۔ آپ کی مسجد،روضہ انور، مکان و دیوار و خار و گل و سگانِ
دربار۔ آپ کی طرف منسوب موئے مبارک کی تصدیق کرنا بھی ہمارا کام نہیں۔ جان لو کہ عزت
و عظمت اسی کی ہے جس کی پلکیں محبوب خدا کے قدموں میں ہوں۔ جو اکڑا وہ تو مردود ہو
گیا اور جو جھکا اس نے معراج پائی۔پھرجب محبت کے قصے لکھنے بیٹھے تو لکھ ہی دیا کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔