قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب ازبنتِ نعیم، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰے ﷺ کا ادب واحترام اور آپ کی تعظیم
کرنا ایمان کی شرط اول ہے۔
محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ
نامکمل ہے
اللہ کریم کو
اپنے حبیب ﷺ کا ادب واحترام اور تعظیم اس قدر عزیز اور محبوب ہے کہ اس نے اپنے حبیب
کی بارگاہ اقدس کے آداب خود بیان فرمائے اور اللہ کریم نے جب بھی قرآن کریم میں
کسی بھی نبی کا ذکر فرمایا تو ان کا نام لے کر فرمایا لیکن جب اپنے پیارے حبیب اور
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور تمام ملائکہ مقربین سے افضل ہمارے پیارے آقا
کا ذکر فرمایا تو آپ کا نام نہیں یاد فرمایا بلکہ آپ کو یایھا
المزمل،
یایھا الرسول، طہ اوریٰسٓ جیسے القابات سے مخاطب فر
مایا۔اور قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آپ ﷺ کی بارگاہ عالی کے آداب بیان فرمائے
ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادرب الا نام ہے۔
1- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ
کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضور اقدسﷺ
صحابہ کرام کو کچھ فرما رہے ہوتے تو کبھی کبھی وہ عرض کرتے: راعنا یا
رسول اللہ! یعنی یا رسول اللہ ہماری رعایت فرمائیے۔ اور یہودیوں کی زبان میں یہ لفظ
بے ادبی کے لئے استعمال ہوتا تھا تو انہوں نے اسے بے ادبی کے لئے کہنا شروع کر
دیا، اس لئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ راعنا نہ کہو اور” انظرنا “
کہنے کا حکم ہوا۔
معلوم ہو!ا پیارے آقاﷺ کے دربار عالی میں ادب کا
لحاظ رکھنافرض ہے کہ ایسے الفاظ جن کے ایک معنی اچھے اور دوسرے معنی غلط یعنی برے
ہوں تو ایسے الفاظ حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں استعمال نہ کئے جائیں۔ اس کے
علاوہ سورہ حجرات، آیت نمبر4 میں ارشادخداوندی ہے:
2- اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ
وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات:
4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر
بے عقل ہیں۔ اس آیت مبارکہ کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے چند
افراد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حضور آرام فرما رہے تھےتو ان لوگوں نے
حجرے کے باہر کھڑے ہوکر آپ کو پکارنا شروع کر دیا حتی کہ آپ باہر تشریف لے آئے، ان
لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور پیارے آقا کی شان عزت کو بیان
فرمایا کہ آپ کی بارگاہ میں اس طرح پکارنا سراسر جہالت و بے عقلی ہے۔ (الحجرات:15-16)
اسی آیت کریمہ کے بعد والی آیت میں اللہ پاک فرماتا
ہے:
3- وَ لَوْ اَنَّهُمْ
صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف
لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیت مبارکہ میں
ان لوگوں کو ادب کی تلقین فرمائی گئی جنہوں نے حضور ﷺ کا انتظار کرنے کی بجائے
انہیں پکارا بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ حضور کو پکارنے کی بجائے آپ کے حجرے سے باہر
تشریف لانے کا انتظار کرتے، یہ ادب کرنا ان کے لئے بہتر تھا۔اسی سورت کے شروع میں
رب کریم فرماتا ہے۔
4-
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ
26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ
سُنتا جانتا ہے۔ اس
آیت مبارکہ سے جو باتیں معلوم ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے
رسول سے آگے نہ بڑھو لیکن اللہ پاک سے آگے بڑھنا تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مکان وز مان
سے پاک ہے اور آگے بڑھنا زمان و مکان میں ہوتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس آیت کا
مقصودیہ ہے کہ رسولﷺ سے آگے نہ بڑ ھو کہ ان کی ادبی در حقیقت کی بے ادبی ہے۔
5-: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی
آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ اس آیت کریمہ میں
فرمایا گیا کہ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں اگر کچھ عرض کرنا ہو تو اپنی آوازیں ان کی
آواز سے بلند نہ کرو بلکہ جو عرض کرنا ہےآہستہ آواز سے کہو اور یہ حکم حضور کے
وصال ظاہری کے بعد سے بھی قیامت تک رہے گا۔
واقعہ:امام
مالک رحمۃ اللہ علیہ جب مسجد نبوی شریف میں درس حدیث دیا کرتے تو جب آپ کے حلقۂ درس
کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپ سے عرض کی گئی کہ آپ ایک آدمی رکھ لیں جو آپ سے حدیث
مبارکہ سن کر لوگوں کو سنا دیا کرے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ آیت مبارکہ
تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ اور فرمایا:رسول
اللہ ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لئے میں کسی شخص کو
یہاں آواز بلند
کرنے کے لئے مقرر نہیں کر سکتا۔
اللہ کریم ہمیں
بھی اخلاص کے ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔