رونا لفظ کو عربی میں البکاءکہتے ہیں، رونا کئی طرح کا ہوتا ہے، جیسا کہ غم سے رونا بہت خوشی میں رونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں رونا، مدینے کی یاد میں رونا، بادل روتا ہے تو چمن ہنستا ہے، اللہ پاک کے ڈر سے رونا، اللہ پاک کی یاد میں رونا وغیرہ، یہاں خوفِ خدا (اللہ پاک کے ڈر) سے رونا مراد ہے، خوف خدا میں بہنے والا آنسو کسی نعمت سے کم نہیں، یہ بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے، یہ خوف خدا میں بہنے والا آنسو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں، خوف سے ہی انسان کی اصلاح ہوتی ہے، اس خوف کی وجہ سے ہی انسان اپنے ربّ کے قریب ہوتا ہے، اللہ پاک کو ندامت سے بہنے والے آنسو بہت پسند ہیں، بندے کی شرمندگی اور خوف سے بہنے والا آنسو اللہ پاک کو بے حد محبوب ہے، میرے ربّ کریم نے خوفِ خدا کی صفت کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا:ارشادِ باری:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔ (پ4، ال عمران:102)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:ارشادِ باری:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ (پ3، ال عمران :28)ارشاد باری:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ (پ22، الاحزاب:70)پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے والے ان مقدس کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیے: حدیث: مبارکہ: سرور عالم، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کا خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کردیا ہے۔(شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 802)حدیث: مبارکہ:خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے :جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے، تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔ (شعب الایمان، ج1، ص491، حدیث: 803)حدیث: مبارکہ:سید المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا، یہاں تک کہ دودھ(جانور کے) تھن میں واپس آجائے۔ (شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 800)قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اکابرینِ اسلام کے اقوال میں بھی خوفِ خدا کی نصیحتیں وارد ہیں:1۔حضرت ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے۔2۔حضرت سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس دل سے خوف دور ہوجاتا ہے وہ ویران ہوجاتا ہے۔پیاری اسلامی بہنو!ایک ایسے عظیم شخصیت کی حکایت ملاحظہ فرمائیں، جو یارِ غار اور یارِمزار بھی، جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی، مگر ان کا خوفِ خدا اور تقویٰ مرحبا! ہمارے اور آپ کے پیارے صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ جو خوف خدا سے اس قدر گھبراتے تھے، فرماتے ہیں: کاش !میں درخت ہوتا، جسے کھالیا جاتا کاٹ دیا جاتا۔اتنی عاجزی، اتنا زہد و تقویٰ، اللہُ اکبر! وہ تو زبان کی احتیاط کیلئے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ لیا کرتے تھے، تاکہ زیادہ نہ بولنا پڑے اور آج دیکھیں ہمارا حال کیا ہے، ہمیں تو گناہ کرکے شرمندگی تو دور کی بات ہے، رونا تک نہیں آتا اور اس گناہ کے ہم چرچے کررہی ہوتی ہیں، جیسے ہمیں مرنا ہی نہیں، ربّ کریم کے حضور کھڑا ہی نہیں ہونا۔اے پیاری بہنو! اتنی بے باکی، اتنی بے خوفی اچھی نہیں، خدارا! اب بھی وقت ہے، سدھر جائیں، انسان تو جس سے محبت کرتا ہے، اس کی ناراضی سے ڈرتا ہے، مگر ہماری اپنے اللہ پاک سے کیسی محبت ہے، ہم تو ہر لمحہ اس کی ناراضی والے کام کرتی ہیں، ہم یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ ہم اللہ پاک سے محبت کرنے کے باوجود اس کو ناراض کرنے کے درپے ہیں، یاد رکھیں! اللہ پاک کے عذاب اور اس کی وعید سے بچنے کیلئے گناہ چھوڑنا بہت اچھی بات ہے، مگر اللہ پاک کی محبت میں گناہ چھوڑنا اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایسا رونا، ایسا خوف، مانگا کرو، کیونکہ اللہ پاک کی محبت جسے نصیب ہوجاتی ہے، اس کو دنیا کی محبت سے پھر کوئی سروکار نہیں ہوتا، اللہ پاک سے ہی دعا مانگا کرو کہ

میں بس تیرے خوف سے روتی رہوں ہر دم تو بس دیوانی مجھے اپنے محبوب کی بنادے

وہ ربّ کریم ہمیں اپنی یاد میں تڑپنا، پھڑکنا اور آنسو بہانا نصیب فرمائے۔آمین۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

ہمیشہ آنکھوں کے پانی سے ایمان کے کھیت کو سینچو، تاکہ اس پانی کی وجہ سے یہ باغ ہرابھرا رہے، اے اللہ پاک! ہم سب کو اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھیں اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم