خوف خدا کا مطلب اللہ پاک کی ناراضی سے ڈرنا اور گناہوں پر ملنے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل خوفِ خدا سے گھبرا جائے ، ہمارے پیارے آ قا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا حتی کہ دودھ (جانور کے )تھن میں واپس آجائے ۔خوفِ خدا میں رونا سنت ہے، خوفِ خدا میں رونے کے بے شمار فضائل ہیں:1۔خوفِ خدا میں رونے سے گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن ملتا ہے۔ 2۔خوف ِخدا سے دل کی سیاہی دور ہوتی ہے اور دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ 3۔انسان کو دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور آ خرت میں بھی۔ 4۔خوفِ خدا سے اللہ پاک اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت دل میں اور مضبوطی پکڑ لیتی ہے۔

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتی یا الٰہی

خوفِ خدا سے جہنم کا عذاب ہٹا دیا جائے گا، بندہ اپنے ربّ کریم کے اور بھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ آج ہم خوفِ خدا میں رونا تو دور کی بات ہے، گناہوں کی ایسی لَت میں مبتلا ہیں کہ ان پر شرمسار بھی نہیں ہوتے اور گناہوں پر گناہ ہر روز کا معمول بن چکا ہے، آ ج کے اس پرفتن دور میں بھی ایک ہستی ایسی ہے، جس نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر خوفِ خدا میں رونے والا بنادیا، وہ ہستی ہے امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ ۔

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔آمین بجاہ النبی الآمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم


مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر/خوف خدا میں بہنے والا آنسو، بلا شبہ خوف خدا ہماری اُخروی نجات کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ عبادات کی بجا آوری اور منہیات سے باز رہنے کا عظیم ذریعہ خوف خدا ہے، اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایام گزرنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوکر تمام اعمال کا حساب دینا ہے، لہٰذا اس دنیاوی زندگی کی رونقوں،مسرتوں میں کھو کر حسابِ آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجانا یقیناً نادانی ہے۔یاد رکھئے! ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم ربّ کائنات اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں، اس مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوف خدا کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔ربّ العالمین نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خوف خدا کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، چند آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

1۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔(پ 4، النساء:1)2۔ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔)پ3،ال عمران:(28خوف خدا میں رونے کے فضائل کے بارے چند فرآمین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ فرمائیے:1۔حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔(کنزالعمال، ج3، ص63، حدیث: 5909)2۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں جو آنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔ (احیاء العلوم،ج4، ص 200)خوف خدا میں رونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے، اللہ پاک کو وہ آنسو بہت پسند ہے، جو اس کی یاد میں بہا ہو، ہمارے بزرگانِ دین پر خوف خدا کا ایسا غلبہ طاری ہوتا تھا کہ ساری ساری رات عبادت میں گزر جاتی اور اللہ کی یاد میں آنسو بہتے۔غوثِ اعظم رضی اللہُ عنہ کا خوفِ خدا:حضرت شیخ سعدی شیرازی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مسجد الحرام میں کچھ لوگ کعبۃ اللہ شریف کے قریب عبادت میں مصروف تھے، اچانک انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دیوارِ کعبہ سے لپٹ کر زارو قطار رو رہا ہے اور اس کے لبوں پر جاری ہے:اے اللہ پاک! اگر میرے اعمال تیری بارگاہ کے لائق نہیں ہیں تو بروزِ قیامت مجھے اندھا اٹھانا، لوگوں کو یہ عجیب و غریب دعا سن کر بڑا تعجب ہوا، چنانچہ انہوں نے دعا مانگنے والے سے استفسار کیا:اے شیخ! ہم تو قیامت میں عافیت کے طلب گار ہیں اور آپ اندھا اٹھائے جانے کی دعا فرما رہے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ اس شخص نے روتے ہوئے جواب دیا:میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے اعمال اللہ پاک کی بارگاہ کے لائق نہیں تو میں قیامت کے دن اس لئے اندھا اٹھایا جانا پسند کرتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔وہ سب لوگ اس عارفانہ جواب کو سن کر بے حد متاثر ہوئے، لیکن اپنے مخاطب کو پہچانتے نہ تھے، اس لئے پوچھا:اے شیخ آپ کون ہیں؟اس نے جواب دیا:میں عبدالقادر جیلانی ہوں۔(فیضان سنت بحوالہ گلستان سعدی، 733) اللہ پاک ہمیں اپنی یاد میں رونا اور آنسو بہانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

آہ!کثرتِ عصیاں، ہائے خوف دوزخ کا کاش! اس جہان کا میں نہ بشر بنا ہوتا


قرب الٰہی کا ذریعہ:تقویٰ و خوف ِالٰہی کی خوبی انسان کو اللہ پاک کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہےجیسا کہ سورۂ الِ عمران میں اللہ پاک فرماتا ہے: اے ایمان والو!اللہ پاک سے ڈروجیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔اور سورۂ نسا ء میں فرمایا : ہم تم میں سے پہلےاہل کتاب کو بھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اللہ پاک سے ڈرو ،ایک اور مقام پر فرمایا :اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بصیرت عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ پاک بڑا فضل والا ہے (مفہوم قرآن )۔ان کے علاوہ اللہ پاک نے اور بھی بہت سی آیتوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف ِالٰہی میں رونے کی تاکید فرمائی ہے۔رونے والی آنکھ آگ سے محفوظ ہے:حدیث: شریف : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے میرے آقائے کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی (1)وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی (2) وہ آنکھ جس نےاللہ پاک کی راہ میں پہرہ داری کرکے رات گزاری (ترمذی ج4ص/92) بلا شبہ خوف خدا وہ نیک اور مقبول عمل ہے کہ جس دل میں پیدا ہوجاتا ہے وہ دل نیکی اور تقویٰ کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کے گناہ و برائی سے دور اور محفوظ نظر آنے لگتا ہے، اور یہ خوف خدا کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جسم کے تمام اعضا یعنی آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ ،پیر اور دل و دماغ سب کے سب نیک اور اچھے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں۔یہ خوف خدا کی برکات و حسنات ہوتی ہیں کہ آنکھ برائی نہیں خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے ،دل و دماغ برا اور خراب نہیں بلکہ بھلا اور اچھا سوچتے دیکھائی دیتے ہیں ،ہاتھ اور پیر گنا ہ و ظلم کے راستے پر چلنے کے بجائے نیک اور حق و سچ کے راستے پر چلتے نظر آتے ہیں ،حاصل کلام یہ ہے کہ جب آدمی اپنے دل میں خوف خدا پیدا کرلیتا ہے اور اللہ پاک سے ڈرنے لگتا ہے تو ہر قسم کے گناہ اور برائی سے محفوظ ہو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں محبوب و مقبول بن جاتا ہے۔خوف خدا کا انعام و اکرام بڑا عظیم ہوتا ہے، ہر نیک کام کا بڑا بہتر اجر اور بدلہ ہے دنیا میں خیرو برکت، آخرت میں عزت و عظمت اور نجات و بخشش اور پھر جنت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ،فیض گنجینہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:اللہ پاک کو کوئی شئے دو قطروں سے زیادہ پسندنہیں: (1) خوف ِالٰہی پاک سے بہنے والا آنسوؤں کا قطرہ اور (2) اللہ پاک کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ۔(جامع الترمذی،حدیث: 1669،ص1823)حضور نبی کریم، ر ء ُوف رحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ دعا فرمایا کرتے : اے اللہ پاک!مجھے رونے والی آنکھیں عطا فرما جو تیرے خوف سے آنسو بہاتی رہیں اس سے پہلے کہ خون کے آنسو رونا پڑے اور داڑھیں پتھرہوجائیں۔ (الزھد للامام احمد بن حنبل،حدیث:48،ص34)

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں


درود پاک کی فضیلت:فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھا، اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ہمارے مضمون کا عنوان ہےخوفِ خدا میں رونے کے فضائل خوفِ خدا کسے کہتے ہیں؟ آیات، احادیث اور بزرگوں کی روایت کے ذریعے خوفِ خدا میں رونے کے فضائل پیش کئے جائیں گے۔خوفِ خدا کا مطلب:اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(خوف خدا، صفحہ 14)اسی طرح اللہ پاک نے قرآن پاک میں متعدد جگہ پر خوفِ خدا میں رونے کے فضائل بیان کئے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے، سورۂ رحمن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے ،اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن: 46)سبحان اللہ!اللہ پاک نے کتنی پیاری فضیلت بیان فرمائی ہے۔ خوفِ خدا کے فضائل :اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے سوا کسی سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوفزدہ کردیتا ہے۔(شعب الایمان، باب الخوف من اللہ ،جلد 1، صفحہ 541، حدیث: 984)اس حدیث: سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے ربّ کریم کا ہی خوف رکھنا چاہئے، اگر اللہ پاک کا خوف دل میں موجود ہوگا تو ان شاء اللہ بہت سے گناہوں سے بھی بچ جائیں گے، الحمدللہ ہمارے اسلاف کرام نے بھی خوفِ خدا میں رونے کے فضائل بیان فرمائے ہیں، جن میں سے دو یہ ہیں:1۔حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو شخص اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 198)2۔کسی بزرگ کا قول ہے:جو ہنستے ہوئے گناہ کرے گا تو ربِّ کریم اسے اس حال میں جہنم میں ڈالے گا کہ وہ رو رہا ہوگا اور جو روتے ہوئے نیکی کرے تو اللہ پاک اسے اس حال میں جنت میں داخل فرمائے گا کہ وہ ہنس رہا ہوگا۔(المنبہات علی الاستعداد لیوم المھاد، صفحہ 5) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا خوف عطا کرے اور اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی

(وسائل بخشش، صفحہ 52)


خوفِ خدا ہوتا کیا ہے؟خوفِ خدا سے مراد ہے کہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر،اس کی بے نیازی،اس کی ناراضی،اس کی گرفت (پکڑ)،اس کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں،اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنا۔خوفِ خدا کی فضیلت:کسی چیز کی فضیلت کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ بندے کو کس قدر اللہ پاک سے ملاقات کی سعادت کے قریب کرتی ہے، بندے کا سب سے بڑا مطلوب سعادت مندی ہے اور سب سے بڑی سعادت مندی اللہ پاک کا قُرب ہے، جو اس کی معرفت سے حاصل ہوتا ہے اور معرفتِ الٰہی اس کے جَلال اور قدرت میں غوروفکر کرتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے، یہ دل سے دنیا کی محبت کا قلع قمع کرنے سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا خواہشاتِ دنیا کا خاتمہ خوفِ خدا کی آگ سے ہی ممکن ہے، گویا کہ خوفِ باری سب سے بڑی سعادت مندی ہے ۔چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے:خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْن۔ترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ 4 ،ال عمران :175)خوفِ خدا کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث: میں مذکور ہیں اور خوفِ خدا اولیائے کرام کی سب سے بڑی صفت ہے ۔فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس بندہ مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کے سبب مکھی کے پَر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، حدیث:4197)خوف سے بہنے والے آنسو:اللہ پاک کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرےسے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں ۔(الزھدلابن المبارک،حدیث: 672)حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس ذات پاک کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اللہ پاک کے خوف سے روؤں، یہاں تک کہ میرے آنسو رُخساروں پر بہیں، یہ میرے نزدیک پہاڑکے برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔جنت میں کون داخل ہو گا؟اُمّ المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:کیا آپ کی اُمّت میں کوئی ایسا شخص بھی ہے، جو بلا حساب جنت میں داخل ہو گا؟ارشاد فرمایا: ہاں! وہ جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔چنانچہ ارشادَ باری ہے:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتٰنِ۔ ترجمۂ کنزالایمان: اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، الرحمٰن:46)خلیفہ ثانی رضی اللہُ عنہ کا خوفِ خدا :کثرت سے رونے کے سبب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ کے چہرہ مبارک پر دو سیاہ لکیریں بن گئی تھیں، ایک روز آپ رضی اللہُ عنہ نے سورۂ تکویر کی تلاوت شروع فرمائی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچے:وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ترجمہ:اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں۔(پ 30،التکویر:10)تو بےہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔بلا شک خوفِ خدا اس کے محبوب بندوں کی صفت ہے، تاریخ دیکھی جائے تو جتنے بھی اولیائے کرام گزرے، سب خوفِ خدا والے تھے، ہاں ویسے یہ ضرور ہے کہ خوفِ خدا اسی میں ہوتا ہے، جس میں عشقِ رسول ہو، کیونکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے بڑھ کر خوفِ خدا والے تھے اور سب سے بڑھ کر اللہ پاک کو محبوب ہیں، ہمیں بھی اللہ پاک کی پیاری بندی بننے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ کو اپنانے کے لئے گناہوں کو ترک کر کے خوفِ خدا کی صفت اپنانی چاہئے۔


فرمانِ مصطفے :مجھ پر درودشریف پڑھو اللہ پاک تم پر رحمت بھیجے گا۔خوفِ خدا میں رونے والا ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا:رحمتِ عالم،سرورِ کائنات،سردارِدو جہان،محبوبِ رحمن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خوفِ خدا میں رونے والا ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا حتی کہ دودھ تھن میں واپس آجائے۔(شعب الایمان ، 1/ 490، حدیث: 800)حکیمُ الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث: پاک کے متعلق فرماتے ہیں:دوہے ہوئے دودھ کا تھن میں واپس ہونا نا ممکن ہے ایسے ہی اس شخص کا دوزخ میں جانا نا ممکن ہے ۔جیسے رب کریم فرماتا ہے :ترجمۂ کنزالایمان: جب تک سُوئی کے ناکے اونٹ نہ داخل ہو۔

قلبِ مضطر کی لاج رکھ مولیٰ یہ صدا میری چشم ِنم کی ہے

قرآن و حدیث: میں اللہ پاک سے ڈرنے کے فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے :ترجمۂ کنزالعرفان:

اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔ایک مقام پر ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنزالعرفان:اور آخرت تمہارے رب کے پاس پرہیزگاروں کیلئے ہے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مومن بندے کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کی وجہ سے آنسو نکلیں اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں،پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آجائیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب اللہ پاک کے خوف سے بندے کا بدن لرزنے لگے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے سوکھے ہوئے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔فرمانِ مصطفے:اللہ پاک کے خوف سے مومن کی آنکھ سے نکلنے والا قطرہ اس کیلئے دنیا اور اس کی ہر چیز اور ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ہمیں اللہ پاک سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ خوفِ خدا میں خوب رونا چاہئے،لیکن ساتھ ساتھ اللہ پاک کی عبادت بھی کرنی چاہئے۔ خوفِ خدا ہو گا تو عبادت کریں گی۔دنیا اورمالِ دنیا کیلئے رونا بھی کوئی رونا ہے؟ سب کچھ یہیں رہ جائے گا،ہر چیز فنا ہو جائے گی۔ اللہ پاک کے خوف میں روئیں گی تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائیں گی۔خوفِ خدا میں رونے کا فائدہ تو دیکھئے کہ جہنم حرام کر دی جاتی ہے اور کیا چاہیے؟اللہ پاک ہم سب کو خوفِ خدا میں رونا نصیب فرمائے۔اٰمین


خوف خدا کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ ۔(پ 22، احزاب:70 )نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔خوف خدا میں رونے کی فضیلت:خوف خدا سے رونے لرزنے اور ربّ کی بارگاہ میں گڑگڑانے والوں کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور انہیں داخلِ جنت کیا جاتا ہے، بلاشبہ خوفِ خدا ایک ایسی چیز ہے، جو بندے کو گناہوں سے روک کر نیکیوں کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔اللہ پاک کے خوف سے اس کی بارگاہ میں رونے سے قربِ الہٰی نصیب ہوتا ہے، خوف خدا سے ہمارا دل عبادتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر خوفِ خدا سے روتے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی ہے۔خوف خدا کے فضائل قرآن کریم کی روشنی میں:سورۂ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔دنیا میں اپنے خالق و مالک کا خوف رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے، جیسا کہ ربّ کریم پارہ 25، سورہ ٔدخان، آیت 51میں ارشاد فرماتاہے:ان المتقین فی مقام امین ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک ڈر والے امان کی جگہ۔جب ہمیں رب کریم کی بارگاہ سے اتنی پیاری پیاری نوید سنائی جا رہی ہے تو کیوں نہ ہم اس کی بارگاہ میں سربسجود ہوں، کیوں نہ ہم اس کی بارگاہ میں خوب روئیں،رب کریم تو ایسا رحیم و کریم ہے کہ بندے کے آنسو بہانے پر فوراً اسے تھام لیتا ہے،اس سے کبھی نہیں ٹھکراتا، خواہ وہ پھر اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے روئے یا پھر اس کے خوف سے روئے۔رونے والا تو زیادہ پسندیدہ ہے، کس طرح ہمارے بزرگانِ دین راتوں کو جاگ جاگ کر عبادتیں کرتے تھے، بعض صحابہ کرام علیہمُ الرضوان کو تو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی تھی، پھر بھی ان کی عبادتوں اور ان کے سجدوں میں کوئی کمی نہیں آئی، آج اگر ہمیں دنیاوی معاملہ پیش آ جاتا ہے، جیسے ٹیسٹ دینا ہے تو کس طرح ہم دن رات محنت کرتی ہیں، بلکہ دنیاوی امتحان میں تو راتوں کی نیندیں اُڑا لیتی ہیں کہ ہم کامیاب ہو جائیں لیکن کیا ہمیں آخرت کا خوف بھی ہے؟ہم جانتی ہیں کہ ہمارے تو اعمال بھی ناقص ہیں تو پھر یہ تو دنیاوی معاملات ہیں، اگر یہاں نہ بھی کامیاب ہوں تو صرف دنیا کا ہی نقصان ہے، لیکن خدانخواستہ آگے بروزِ حشر کیا بنے گا؟ ہمارے پاس اعمال بھی ہیں جو ہمیں کامیاب کروائیں اور پُل صراط پار کروائیں؟ جو قبر کے کیڑے مکوڑوں سے بچالیں؟ کیا ہم خوف خدا سے روتی ہیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔خوف خدا کے فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے:سرورِ عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ اس کے لئے دوامن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے علاوہ کسی چیز سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوفزدہ کردیتا ہے۔ سرور عالی شان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔جہاں ربّ کریم کی رحمت سے یہ نوید ملتی ہے کہ وہ اپنی رحمت سے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا اور جہنم حرام کردے گا اور کہیں وہ ہمیں عذاب سے ڈراتا ہے،بےشک اس کا عذاب بہت ہی سخت ہوگا، جو ہم جیسی جانیں جنہیں آج ایک ذرا سی چوٹ لگ جائے تو اس پر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں تو خدانخواستہ اگر وہ ہم سے ناراض ہو گیا تو ہم کیا کریں گی۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔آمین

دل ہائے گناہوں سے بیزار نہیں ہوتا مغلوب شہا! نفسِ بدکار نہیں ہوتا

اے ربّ کے حبیب آؤ اے میرے طبیب آؤ اچھا یہ گناہوں کا بیمار نہیں ہوتا


خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے، خوف خدا میں رونے کے بہت فضائل ہیں، سورۂ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)اللہ پاک سے ڈرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور آخرت تمہارے ربّ کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔اپنے پروردگار پاک کا خوف جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ ہے، ربّ کریم کا خوف ذریعہ نجات ہے، اللہ پاک کے خوف سے رونا بندے کو نارِ جہنم سے بچا لیتا ہے، جیسا کہ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:لَا یَدْخَلُ النَّارَ مَنْ بَکیٰ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ تعالٰی حتیٰ یَلِجَ اللَبْنُ الضَّرْعَ۔اللہ پاک کے خوف سے رونے والا دوزخ میں نہیں جائے گا، یہاں تک کہ دودھ دوبارہ تھن میں چلا جائے، یعنی جس طرح دو ھا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں جانا ممکن نہیں، اسی طرح خوفِ خدا سے رونے والے کا جہنم میں جانا دشوار ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی اپنے خوف سے رونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


خوفِ خدا کا مطلب:یاد رکھئے!مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر، جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے، ربّ کریم نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے: ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا، مگر مسلمان۔(پ4، ال عمران:102)پیارے آقا، احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان حق ترجمان سے نکلنے والے ان مقدس کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیں، جن میں آپ نے اس صفتِ عظیمہ کو اپنانے کی تاکید فرمائی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو نہایت اہم چیزوں کو نہ بھولنا، جنت اور دوزخ، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رونے لگے، حتی کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی مبارک تر ہو گئی، پھر فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو جنگلوں میں نکل جاؤ اور اپنے سروں پر خاک ڈالنے لگو۔ (مکاشفۃالقلوب:316)اللہ پاک دیکھ رہا ہے:ایک شخص کسی شامی عورت کے پیچھے لگ گیا اور ایک مقام پر اسےخنجر کے بل بوتے پر یَرغمال بنالیا، جو کوئی اس عورت کو بچانے کے لئے آگے بڑھتا، وہ اسے زخمی کر دیتا، وہ عورت مسلسل مدد کے لیے پکار رہی تھی، اتنے میں حضرت بشر بن حارث وہاں سے گزرے تو اس شخص کو کندھا مارتے ہوئے آگے نکل گئے، وہ شخص پسینے سے شرابور ہو کر زمین پر گر گیا اور وہ عورت اس کے چنگل سے آزاد ہو کر ایک طرف کو چل دی، اس کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگوں نے اس سے پوچھا:تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا:میں نہیں جانتا!لیکن جب وہ بزرگ گزرنے لگے تو مجھے کندھا مار کر کہا:اللہ پاک دیکھ رہا ہے، ان کی یہ بات سن کر میں ہیبت زدہ ہو گیا، نہ جانے وہ کون تھے، یہ حضرت بشر بن حارث تھے، تو اس نے کہا: آہ، میری بد نصیبی!میں آج کے بعد ان سے نگاہ نہیں ملا پاؤں گا، پھر اس شخص کو بخار آ گیا اور ساتویں دن اس کا انتقال ہوگیا۔(کتاب التوابین، صفحہ 213)نیند کیسے آ سکتی ہے:حضرت احمد حرب عمر بھر شب بیدار رہے، جب کبھی لوگ آپ سے آرام کرنے کے لئے اصرار کرتے تو فرماتے:جس کے لئے جہنم بھڑکائی جارہی ہو اور بہشت کو آراستہ کیا جا رہا ہو، لیکن اس کو علم نہ ہو کہ ان دونوں میں اس کا ٹھکانہ کہاں ہے، اس کو نیند کیسے آ سکتی ہے؟(تذکرہ الاولیاء، صفحہ 220)آنکھ کی بینائی جاتی رہی:حضرت اسود بن یزید نہایت جلیل القدر تابعی ہیں اور عبادت و ریاضت میں ان کا مقام بہت بلند ہے، آپ خوفِ خدا سے رات کو اس قدر رویا کرتے تھے کہ آپ کی ایک آنکھ کی بینائی رونے کی وجہ سے جاتی رہی، اتنے لاغر ہو گئے کہ بدن پر گویا ہڈی اور کھال کے علاوہ کوئی بوٹی نہیں رہ گئی تھی۔(اولیاء رجال حدیث:، صفحہ 37)رونے کی آواز:حضرت عمر بن عبد اللہ فرماتے ہیں :میں نے امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔(حلیۃ الاولیاء ذکر الصاحبۃ من المہاجرین، جلد 1، صفحہ 89، حدیث: 141)


پیاری اسلامی بہنو! اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایام گزارنے کے بعدہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوکر تمام اعمال کا حساب دینا ہے۔جس کے بعد رحمت ِ الٰہی ہماری طرف متوجہ ہونے کی صورت میں جنت کی اعلیٰ نعمتیں ہمارا مقدر بنیں گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم کی ہولناک سزائیں ہمارا نصیب ہوں گی۔ لہٰذا !اس دنیاوی زندگی کی رونقوں،مسرتوں اور رعنائیوں میں کھوکر حسابِ آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجانا یقیناً نادانی ہے۔یاد رکھئے!ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم ربِّ کائنات اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں ۔اس مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوفِ خدا کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔اس نعمت ِ عظمیٰ کے حصول میں کامیابی کی خواہش رکھنے والی اسلامی بہنوں کے لئے درجِ ذیل سطور کامطالعہ بے حد مفید ثابت ہوگا۔اِنْ شَاءَ اللہ ۔خوفِ خدا کا مطلب:یاد رکھئے!مطلقاًخوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہومثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔جبکہ خوفِ خدا کامطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی،اس کی ناراضی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔

(احیاء العلوم،کتاب الخوف والرجاء،4/190ماخوذا)آخرت میں کامیابی:اللہ پاک سے ڈرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ0 تر جمۂ کنز الایمان :اور آخرت تمہارے رب کے پا س پرہیزگاروں کے لیے ہے۔(پ25، الز خرف :35 )جنت کے باغات:پروردگار کا خوف اپنے دل میں بسانے والوں کو جنت کے باغات اور چشمے عطا کئے جائیں گے،جیسا کہ ربِّ کریم کا فرمان ہے:اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕتر جمۂ کنز الایمان :بے شک ڈر والے باغو ں اور چشموں میں ہیں۔( پ 14، الحجر: 45)اللہ پاک کے پسندیدہ بندے:خوفِ خدا رکھنے والے خوش نصیب اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ بننے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:اِنَّ اللہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ0ترجمۂ کنزالایمان:بیشک پر ہیز گار اللہ کو خوش آتے ہیں ۔(پ10،التوبہ:7)جہنم سے رہائی:سَرورِ عالم،شفیعِ معظم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھروہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان،1/490،حدیث:802)درخت کے پتے جھڑتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مومن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(شعب الایمان،1/491،حدیث:803)


خوفِ خدا کیا ہے؟ہم بارہا سنتی ہیں اور اللہ پاک نصیب کرے، اگر مطالعہ کا شوق ہو تو پڑھتی ہیں کہ خوفِ خدا اپنے اندر پیدا کیا جائے، خوفِ خدا سے رویا جائے، بلکہ یہاں تک کہ روایات میں آتا ہے: اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنائی جائے، لیکن در حقیقت خوفِ خدا کیا ہے؟ کیا خوف کا مطلب صرف ڈرنا ہے؟ ہمیں خوفِ خدا کی درست تعریف معلوم نہ ہونے کی وجہ سے شاید خوفِ خدا نصیب ہی نہیں ہوتا، خوفِ خدا جیسی عظیم نعمت پانے کے لئے اس کی تعریف معلوم ہوگی تو اِن شاءَ اللہ ہمیں یہ نعمت نصیب ہو گی۔خوف خدا کی تعریف:اللہ پاک کی خفیہ تدبیر، اس کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں، اس کے غضب اور اس نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوفزدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 26)تم کیوں روتے ہو؟پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، وہ رو رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دریافت فرمایا:اے جبرائیل!تم کیوں روتے ہو، حالانکہ تم بلند ترین مقام پر فائز ہو؟انہوں نے عرض کی:میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حقدار ہوں کہ کہیں میں اللہ پاک کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر ابتلا نہ آجائے کہ وہ فرشتوں میں رہتا تھا، یہ سن کر نبی محترم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ ندا دی گئی، اے جبرائیل علیہ السلام اور اے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!اللہ پاک نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرما دیا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 46)سبحان اللہ!ایک وہ فرشتے جو اللہ پاک کے مکرم ترین فرشتے ہیں اور دوسرے وہ جو حبیب اللہ یعنی اللہ پاک کے محبوب ترین بندے ہیں، اتنے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود ایسا خوف خدا کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں کہ ہم کہاں ہیں؟ کسی بھی مرتبے پر نہیں تو ہم اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے کیوں نہیں ڈرتیں؟؟ ہمیں اگر خوف خدا نصیب نہیں تو کیوں نہیں؟ ہمیں ہمیشہ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم بے باک تو نہیں ہوگئیں؟؟ خوفِ خدا میں رونا کیسے نصیب ہو؟خوفِ خدا میں رونا اللہ کریم ہر مسلمان کو نصیب کرے، اگر ہم اللہ پاک کی خفیہ تدابیر، اس کی گرفت کے بارے میں مطالعہ کریں گے اور پھر اس میں غوروفکر کریں گی تو ان شاء اللہ اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ خوفِ خدا میں رونا نصیب ہوگا ، اللہ پاک کی ذات و صفات کی معرفت (پہچان) کے سبب بھی خوف خدا میں رونا نصیب ہو گا۔چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں، جو علم والے ہیں۔(پ22، فاطر:28)جب بندے کو اللہ پاک کی صفات کی معرفت ہوتی ہے تو اسے اللہ پاک کا خوف بھی نصیب ہوگا۔خوف خدا میں رونے کی فضیلت:خوفِ خدا میں رونے کی کیا بات ہے کہ عموماً انسان کو جس چیز سے خوف ہوتا ہے تو وہ اس چیز سے دور بھاگنے لگتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص اندھیرے سے ڈرتا ہے تو ہمیشہ اندھیرے والی جگہ سے دور بھاگے گا، لیکن خوفِ خدا کیا کمال کی نعمت ہے کہ حضرت ابو القاسم بن اسحاق بن محمد سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص کسی چیز سے خوفزدہ ہوتا ہے تو وہ اس سے دور بھاگتا ہے، جبکہ خوفِ خدا رکھنے والا اسی کے دامنِ کرم میں پناہ لیتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد 4) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہُ عنہ سے فرمایا:اے بلال! جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا سکتے ہیں۔(خوف خدا )سبحان اللہ!پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے رونے کی کتنی پیاری فضیلت بیان فرمائیں کہ جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو بجھا سکتے ہیں تو ہم میں سے کون ایسی ہوگی جو یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے لئے جہنم کی آگ بُجھ جائے! الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور چاہتی ہیں کہ جہنم کی آگ ہمارے لئے بجھ جائے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(خوف خدا )اشکوں کا پیالہ:منقول ہے : بروزِ قیامت جہنم سے پہاڑ کے برابر آگ نکلے گی اور امتِ مصطفی کی طرف بڑھے گی تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلائیں گے: اے جبرائیل: اس آگ کو روک لو، یہ میری امت کو جلانے پر تلی ہوئی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام پیالے میں تھوڑا سا پانی لائیں گے اور آپ کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کریں گے:اس پانی کو اس آگ پر ڈال دیجئے۔چنانچہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس پانی کو آگ پر انڈیل دیں گے، جس سے وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، پھر آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کریں گے: اے جبرائیل!یہ کیسا پانی تھا، جس سے آگ فوراً بجھ گئی؟ وہ عرض کریں گے: یہ آپ کے ان امتیوں کے آنسوؤں کا پانی ہے، جو خوفِ خدا کے سبب تنہائی میں رویا کرتے تھے۔(خوف خدا)اللہ پاک ہمیں بھی خوف خدا میں رونا نصیب فرمائے۔آمین


خوف کے معنیٰ ہیں ڈرنا، کیفیت کا بدل جانا،خوف کئی طرح کا ہوتا ہے، اپنی جان کا خوف، مال کے چھن جانے کا خوف اور اللہ پاک کا خوف، اللہ پاک کے خوف میں رونے اور اللہ پاک کی جلالت و ہیبت سے کیفیت کے بدل جانے کا بیان قرآن میں بھی آیا ہے۔اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور پارسائی نگاہ رکھنے والے اور رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں،ان سب کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(الاحزاب: 34)فرمانِ باری ہے: بے شک وہ جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (پ29،ملک: 12)بزرگانِ دین کا خوف خدا : امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ جب قرآن پاک کی کوئی آیت سنتے تو خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گر پڑتے اور کئی دن تک آپ کی عیادت کی جاتی۔ (لباب الاحیاء، احیاء العلوم کا خلاصہ، صفحہ نمبر 322)دیکھئے! اَصحابُ النبی کتنے خوف خدا رکھنے والے تھے کہ اگر قرآن پاک کی کوئی آیت مبارکہ سنتے تو بے ہوش ہو جاتے اور ہمارا یہ حال ہے کہ وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، لیکن ہمارے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ وعظ و نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی۔خوفِ خدا میں رونے کے لئے ایک اور حکایت:حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے: آپ کی کمر جوانی ہی میں جھک گئی، لوگوں نے کئی مرتبہ جاننے کی کوشش کی لیکن آپ نے جواب نہ دیا، ایک دن آپ کے شاگرد نے موقع پا کر اس بارے میں پوچھا، مسلسل اصرار پر ارشاد فرمایا: میرے استاد تھے کہ جن کا شمار بہت بڑے علما میں ہوتا تھا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو مجھ سے فرمانے لگے: اے سفیان ثوری! کیا تو جانتا ہے کہ میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ میں پچاس سال تک مخلوقِ خدا کو اطاعتِ ربّ اور گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہا، لیکن افسوس! آج میری زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے، اگر اللہ پاک نے یہ کہہ کر بارگاہ سے نکال دیا کہ تو میری بارگاہ میں آنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اپنے استاد کی یہ بات سن کر خوف سے میری کمر ٹوٹ گئی، جس کے ٹوٹنے کی آواز وہاں موجود لوگوں نے بھی سنی اور میں ربّ کریم کے خوف سے آنسو بہاتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے پیشاب سے خون آنے لگا اور میں بیمار ہوگیا۔جب میری بیماری شدت اختیار کر گئی، تو میں ایک غیر مسلم طبیب کے پاس گیا، تو پہلے اسے میری بیماری معلوم نہ ہوئی، پھر اس نے چہرے کی طرف دیکھا اور نبض دیکھی، پھر سوچ کر کہا:میرا خیال ہے کہ مسلمانوں میں اس جیسا نوجوان نہیں جس کا جگر خوفِ خدا سے پھٹ گیا۔ (حکایات الصالحین، ص 45)حضرت ابرہیم کے بارے میں ہے: جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا سے ان کے دل کی دھڑکن ایک میل پر سنائی دیتی۔ارشاد باری ہے:خبردار رہو کہ اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہے، نہ وہ غمگین ہوں گے۔(ال عمران:174)اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں عاشقِ مصطفی اور خوفِ خدا رکھنے والیاں بنائے۔آمین