خوف کے معنیٰ ہیں
ڈرنا، کیفیت کا بدل جانا،خوف کئی طرح کا ہوتا ہے، اپنی جان کا خوف، مال کے چھن
جانے کا خوف اور اللہ پاک کا خوف، اللہ پاک کے خوف میں رونے اور اللہ پاک کی جلالت و ہیبت
سے کیفیت کے بدل جانے کا بیان قرآن میں بھی آیا ہے۔اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے:بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں
اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں
اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے
والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور پارسائی نگاہ رکھنے والے
اور رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں،ان سب
کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(الاحزاب: 34)فرمانِ باری ہے: بے شک وہ جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں
ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (پ29،ملک: 12)بزرگانِ دین کا خوف خدا : امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی
اللہُ عنہ جب قرآن پاک کی کوئی آیت سنتے تو خوف کی وجہ سے بے ہوش
ہوکر گر پڑتے اور کئی دن تک آپ کی عیادت کی جاتی۔ (لباب الاحیاء، احیاء العلوم کا
خلاصہ، صفحہ نمبر 322)دیکھئے! اَصحابُ النبی کتنے
خوف خدا رکھنے والے تھے کہ اگر قرآن پاک کی کوئی آیت مبارکہ سنتے تو بے ہوش ہو
جاتے اور ہمارا یہ حال ہے کہ وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، لیکن ہمارے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ وعظ و
نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی۔خوفِ خدا میں رونے کے لئے ایک اور حکایت:حضرت سفیان ثوری
رحمۃ
اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے: آپ کی کمر جوانی ہی میں
جھک گئی، لوگوں نے کئی مرتبہ جاننے کی کوشش کی لیکن آپ نے جواب نہ دیا، ایک دن آپ
کے شاگرد نے موقع پا کر اس بارے میں پوچھا، مسلسل اصرار پر ارشاد فرمایا: میرے استاد تھے کہ جن کا شمار بہت بڑے علما
میں ہوتا تھا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو مجھ سے فرمانے لگے: اے سفیان
ثوری! کیا تو جانتا ہے کہ میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ میں پچاس سال تک مخلوقِ
خدا کو اطاعتِ ربّ اور گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہا، لیکن افسوس! آج میری
زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے، اگر اللہ پاک نے یہ کہہ کر بارگاہ سے نکال دیا کہ تو میری بارگاہ میں آنے کی اہلیت نہیں
رکھتا، اپنے استاد کی یہ بات سن کر خوف سے میری کمر ٹوٹ گئی، جس کے ٹوٹنے کی آواز
وہاں موجود لوگوں نے بھی سنی اور میں ربّ کریم کے خوف سے آنسو بہاتا رہا اور نوبت
یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے پیشاب سے خون آنے لگا اور میں بیمار ہوگیا۔جب میری
بیماری شدت اختیار کر گئی، تو میں ایک غیر مسلم طبیب کے پاس گیا، تو پہلے اسے میری
بیماری معلوم نہ ہوئی، پھر اس نے چہرے کی طرف دیکھا اور نبض دیکھی، پھر سوچ کر کہا:میرا
خیال ہے کہ مسلمانوں میں اس جیسا نوجوان نہیں جس کا جگر خوفِ خدا سے پھٹ گیا۔ (حکایات الصالحین، ص 45)حضرت ابرہیم کے بارے میں ہے: جب نماز
کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا سے ان کے دل کی دھڑکن ایک میل پر سنائی دیتی۔ارشاد
باری ہے:خبردار رہو کہ اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہے، نہ وہ غمگین ہوں گے۔(ال عمران:174)اللہ پاک ہمیں حقیقی
معنوں میں عاشقِ مصطفی اور خوفِ خدا رکھنے والیاں بنائے۔آمین