خوفِ خدا کا
مطلب:یاد رکھئے!مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقع کے
سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری
سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر، جبکہ خوفِ
خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی
سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے، ربّ کریم نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر
اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے: ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا، مگر مسلمان۔(پ4، ال عمران:102)پیارے آقا، احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان حق ترجمان سے نکلنے والے ان مقدس کلمات کو بھی
ملاحظہ فرمائیں، جن میں آپ نے اس صفتِ عظیمہ کو اپنانے کی تاکید فرمائی، چنانچہ حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:رسول اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو نہایت اہم چیزوں کو نہ بھولنا، جنت اور دوزخ، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رونے لگے، حتی کہ
آنسوؤں سے آپ کی داڑھی مبارک تر ہو گئی، پھر فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،اگر تم وہ جان
لو جو میں جانتا ہوں تو جنگلوں میں نکل جاؤ اور اپنے سروں پر خاک ڈالنے لگو۔ (مکاشفۃالقلوب:316)اللہ پاک دیکھ رہا ہے:ایک شخص کسی شامی عورت کے پیچھے لگ گیا اور ایک مقام پر اسےخنجر
کے بل بوتے پر یَرغمال بنالیا، جو کوئی اس
عورت کو بچانے کے لئے آگے بڑھتا، وہ اسے
زخمی کر دیتا، وہ عورت مسلسل مدد کے لیے
پکار رہی تھی، اتنے میں حضرت بشر بن حارث وہاں سے گزرے تو اس شخص کو کندھا
مارتے ہوئے آگے نکل گئے، وہ شخص پسینے سے
شرابور ہو کر زمین پر گر گیا اور وہ عورت اس کے چنگل سے آزاد ہو کر ایک طرف کو چل دی، اس کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگوں نے اس سے
پوچھا:تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا:میں نہیں جانتا!لیکن جب وہ بزرگ گزرنے لگے تو مجھے
کندھا مار کر کہا:اللہ پاک دیکھ رہا ہے، ان کی
یہ بات سن کر میں ہیبت زدہ ہو گیا، نہ
جانے وہ کون تھے، یہ حضرت بشر بن حارث تھے، تو اس نے کہا: آہ، میری بد نصیبی!میں آج کے بعد ان سے نگاہ نہیں
ملا پاؤں گا، پھر اس شخص کو بخار آ گیا
اور ساتویں دن اس کا انتقال ہوگیا۔(کتاب
التوابین، صفحہ 213)نیند کیسے آ سکتی ہے:حضرت احمد حرب
عمر بھر شب بیدار رہے، جب کبھی لوگ آپ سے
آرام کرنے کے لئے اصرار کرتے تو فرماتے:جس کے لئے جہنم بھڑکائی جارہی ہو اور بہشت
کو آراستہ کیا جا رہا ہو، لیکن اس کو علم
نہ ہو کہ ان دونوں میں اس کا ٹھکانہ کہاں ہے، اس کو نیند کیسے آ سکتی ہے؟(تذکرہ
الاولیاء، صفحہ 220)آنکھ کی بینائی جاتی رہی:حضرت اسود بن
یزید نہایت جلیل القدر تابعی ہیں اور عبادت و ریاضت میں ان کا مقام بہت بلند
ہے، آپ خوفِ خدا سے رات کو اس قدر رویا
کرتے تھے کہ آپ کی ایک آنکھ کی بینائی رونے کی وجہ سے جاتی رہی، اتنے لاغر ہو گئے کہ بدن پر گویا ہڈی اور کھال
کے علاوہ کوئی بوٹی نہیں رہ گئی تھی۔(اولیاء رجال حدیث:، صفحہ 37)رونے کی آواز:حضرت عمر بن عبد اللہ
فرماتے ہیں :میں نے امیر المؤمنین عمر
فاروق رضی اللہُ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی
تھی۔(حلیۃ الاولیاء ذکر الصاحبۃ من المہاجرین، جلد 1، صفحہ 89، حدیث: 141)