خوف خدا کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ ۔(پ 22، احزاب:70 )نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔خوف خدا میں رونے کی فضیلت:خوف خدا سے رونے لرزنے اور ربّ کی بارگاہ میں گڑگڑانے والوں کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور انہیں داخلِ جنت کیا جاتا ہے، بلاشبہ خوفِ خدا ایک ایسی چیز ہے، جو بندے کو گناہوں سے روک کر نیکیوں کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔اللہ پاک کے خوف سے اس کی بارگاہ میں رونے سے قربِ الہٰی نصیب ہوتا ہے، خوف خدا سے ہمارا دل عبادتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر خوفِ خدا سے روتے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی ہے۔خوف خدا کے فضائل قرآن کریم کی روشنی میں:سورۂ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔دنیا میں اپنے خالق و مالک کا خوف رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے، جیسا کہ ربّ کریم پارہ 25، سورہ ٔدخان، آیت 51میں ارشاد فرماتاہے:ان المتقین فی مقام امین ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک ڈر والے امان کی جگہ۔جب ہمیں رب کریم کی بارگاہ سے اتنی پیاری پیاری نوید سنائی جا رہی ہے تو کیوں نہ ہم اس کی بارگاہ میں سربسجود ہوں، کیوں نہ ہم اس کی بارگاہ میں خوب روئیں،رب کریم تو ایسا رحیم و کریم ہے کہ بندے کے آنسو بہانے پر فوراً اسے تھام لیتا ہے،اس سے کبھی نہیں ٹھکراتا، خواہ وہ پھر اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے روئے یا پھر اس کے خوف سے روئے۔رونے والا تو زیادہ پسندیدہ ہے، کس طرح ہمارے بزرگانِ دین راتوں کو جاگ جاگ کر عبادتیں کرتے تھے، بعض صحابہ کرام علیہمُ الرضوان کو تو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی تھی، پھر بھی ان کی عبادتوں اور ان کے سجدوں میں کوئی کمی نہیں آئی، آج اگر ہمیں دنیاوی معاملہ پیش آ جاتا ہے، جیسے ٹیسٹ دینا ہے تو کس طرح ہم دن رات محنت کرتی ہیں، بلکہ دنیاوی امتحان میں تو راتوں کی نیندیں اُڑا لیتی ہیں کہ ہم کامیاب ہو جائیں لیکن کیا ہمیں آخرت کا خوف بھی ہے؟ہم جانتی ہیں کہ ہمارے تو اعمال بھی ناقص ہیں تو پھر یہ تو دنیاوی معاملات ہیں، اگر یہاں نہ بھی کامیاب ہوں تو صرف دنیا کا ہی نقصان ہے، لیکن خدانخواستہ آگے بروزِ حشر کیا بنے گا؟ ہمارے پاس اعمال بھی ہیں جو ہمیں کامیاب کروائیں اور پُل صراط پار کروائیں؟ جو قبر کے کیڑے مکوڑوں سے بچالیں؟ کیا ہم خوف خدا سے روتی ہیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔خوف خدا کے فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے:سرورِ عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ اس کے لئے دوامن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے علاوہ کسی چیز سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوفزدہ کردیتا ہے۔ سرور عالی شان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔جہاں ربّ کریم کی رحمت سے یہ نوید ملتی ہے کہ وہ اپنی رحمت سے معاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا اور جہنم حرام کردے گا اور کہیں وہ ہمیں عذاب سے ڈراتا ہے،بےشک اس کا عذاب بہت ہی سخت ہوگا، جو ہم جیسی جانیں جنہیں آج ایک ذرا سی چوٹ لگ جائے تو اس پر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں تو خدانخواستہ اگر وہ ہم سے ناراض ہو گیا تو ہم کیا کریں گی۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔آمین

دل ہائے گناہوں سے بیزار نہیں ہوتا مغلوب شہا! نفسِ بدکار نہیں ہوتا

اے ربّ کے حبیب آؤ اے میرے طبیب آؤ اچھا یہ گناہوں کا بیمار نہیں ہوتا