مطلقاً خوف سے
مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ
امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے
زخمی ہوجانے کا ڈر/خوف خدا میں بہنے والا آنسو، بلا شبہ خوف خدا ہماری اُخروی نجات
کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ عبادات کی بجا آوری اور منہیات سے باز رہنے
کا عظیم ذریعہ خوف خدا ہے، اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مختصر
سی زندگی کے ایام گزرنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوکر
تمام اعمال کا حساب دینا ہے، لہٰذا اس دنیاوی زندگی کی رونقوں،مسرتوں میں کھو کر
حسابِ آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجانا یقیناً نادانی ہے۔یاد رکھئے! ہماری
نجات اسی میں ہے کہ ہم ربّ کائنات اور اس کے پیارے حبیب صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے
اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں، اس
مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوف خدا کا ہونا بھی بے حد ضروری
ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔ربّ العالمین نے خود
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خوف خدا کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،
چند آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تمہیں
ایک جان سے پیدا کیا ہے۔(پ 4، النساء:1)2۔ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔)پ3،ال عمران:(28خوف خدا میں رونے کے فضائل کے بارے چند فرآمین مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ فرمائیے:1۔حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک
کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے
گا۔(کنزالعمال، ج3، ص63، حدیث: 5909)2۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند
نہیں جو آنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا
ہے۔ (احیاء العلوم،ج4، ص 200)خوف خدا میں رونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے، اللہ پاک کو وہ آنسو بہت پسند
ہے، جو اس کی یاد میں بہا ہو، ہمارے بزرگانِ دین پر خوف خدا کا ایسا غلبہ طاری
ہوتا تھا کہ ساری ساری رات عبادت میں گزر جاتی اور اللہ کی یاد میں آنسو
بہتے۔غوثِ اعظم رضی اللہُ عنہ کا خوفِ خدا:حضرت شیخ سعدی شیرازی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مسجد الحرام میں کچھ لوگ کعبۃ اللہ شریف
کے قریب عبادت میں مصروف تھے، اچانک انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دیوارِ کعبہ سے
لپٹ کر زارو قطار رو رہا ہے اور اس کے لبوں پر جاری ہے:اے اللہ پاک! اگر میرے
اعمال تیری بارگاہ کے لائق نہیں ہیں تو بروزِ قیامت مجھے اندھا اٹھانا، لوگوں کو
یہ عجیب و غریب دعا سن کر بڑا تعجب ہوا، چنانچہ انہوں نے دعا مانگنے والے سے
استفسار کیا:اے شیخ! ہم تو قیامت میں عافیت کے طلب گار ہیں اور آپ اندھا اٹھائے
جانے کی دعا فرما رہے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ اس شخص نے روتے ہوئے جواب دیا:میرا
مطلب یہ ہے کہ اگر میرے اعمال اللہ پاک کی بارگاہ کے لائق نہیں تو میں قیامت کے دن
اس لئے اندھا اٹھایا جانا پسند کرتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا
پڑے۔وہ سب لوگ اس عارفانہ جواب کو سن کر بے حد متاثر ہوئے، لیکن اپنے مخاطب کو پہچانتے نہ تھے، اس لئے
پوچھا:اے شیخ آپ کون ہیں؟اس نے جواب دیا:میں عبدالقادر جیلانی ہوں۔(فیضان سنت بحوالہ گلستان سعدی، 733) اللہ پاک ہمیں اپنی یاد میں رونا اور آنسو بہانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
آہ!کثرتِ عصیاں،
ہائے خوف دوزخ کا کاش! اس
جہان کا میں نہ بشر بنا ہوتا