خوفِ خدا میں رونے کے کثیر فضائل ہیں۔یاد رکھئے!مطلقاً خوف  سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جیسے پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر۔جب کہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے،۔(خوفِ خدا، ص14)آیت قرآنیہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(خوف خدا، صفحہ 11)خوفِ خدا میں رونے کے فضائل:سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے سوا کسی سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوف زدہ کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 30)سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 30) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(خوف خدا، صفحہ 31)رحمتِ کونین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا :اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے یاد کیا ہو یا کسی مقام میں میرا خوف کیا ہو۔(خوف خدا، صفحہ 31) مدنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے بڑھ کر کامل عقل والا وہ ہے، جو ربِّ کریم سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور جو تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اللہ پاک کے احکام میں زیادہ غور کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 32)

حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 33)خوف خدا کا فائدہ:حضرت ابراہیم بن شیبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب دل میں خوفِ خدا پیدا ہو جائے تو اس کی شہوات کو توڑ دیتا ہے، دنیا سے بے رغبت کر دیتا ہے اور زبان کو ذکرِ دنیا سے روک دیتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 33،34)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خوفِ خدا میں رونے والی آنکھیں نصیب فرمائے اور ہمیں اپنا عشق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


خوفِ خدا کا مطلب ہے: اللہ پاک کے خوف سے رونا، اس کی بڑی فضیلتیں ہیں۔اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ترجمہ:بے شک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔اس سے معلوم ہوا! اللہ پاک سے ڈرنے والوں کو باغ اور چشمے عطا کئے جائیں گے، ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک پہنچے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان)معلوم ہوا!جو خوفِ خدا میں روئے، ربّ کریم اسے دوزخ پر حرام فرما دیتا ہے، ہم دنیا کے لئے بہت روتے ہیں، اللہ پاک ہمیں اپنے خوف میں رونا نصیب فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(شعب الایمان) بزرگانِ دین کے اقوال:حضرت شبلی رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:میں جس دن اللہ پاک سے ڈرتا ہوں، اسی دن حکمت و عبرت کا ایسا دروازہ دیکھتا ہوں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ کمزور انسان اگر جہنم سے اسی طرح ڈرے، جس طرح محتاجی سے ڈرتا ہے تو جنت میں داخل ہو۔ (احیاء العلوم) اللہ پاک خوفِ خدا والوں کو بے حد اجر دیتا ہے، خوفِ خدا ہونا بندے میں بہت ضروری ہے، اسی سے بندے کو نیکی کی توفیق اور گناہ سے بچنے کا ذہن ملتا ہے اور انسان کا دل نیکیوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنا خوف نصیب فرمائے۔آمین


اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایّام گزارنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب دینا ہے،  جس کے بعد رحمتِ الٰہی ہماری طرف متوجّہ ہونے کی صورت میں جنت کی اعلی نعمتیں ہمارا مقدر بنیں گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم کی ہولناک سزائیں ہمارا نصیب ہوں گی، اس مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوفِ خدا کا ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمتیں حاصل نہ ہوں، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا دوزخ میں نہیں جائے گا، یہاں تک کہ دودھ دوبارہ تھن میں چلا جائے، یعنی جس طرح دوھا ہوا دودھ دوبارہ تھن میں جانا ممکن نہیں، اسی طرح خوفِ خدا سے رونے والے کا جہنم میں جانا دشوار ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی کوئی بندہ مؤمن نہیں، جس کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلیں، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے کو پہنچیں، مگر اسے اللہ پاک آگ پر حرام فرما دے گا۔


خوفِ خدا ایسی نعمت ہے کہ جس کے سبب انسان گناہوں کی دَلدل سے محفوظ رہ سکتا ہے،  جب ارتکابِ گناہ کی ساری رکاوٹیں دور ہو جائیں تو خوفِ خدا ہی انسان کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روک سکتا ہے۔گھر بھر میں ایک بھی خوفِ خدا رکھنے والا فرد موجود ہو تو اس کا مَثبت اثر دوسرے افراد پر بھی پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں سارا گھرا نہ خوفِ خدا کی برکتوں سے مالامال ہو جاتا ہے، لیکن اگر سبھی بے خوفی کا شکار ہو جائیں تو اس کے منفی اثرات سب کے لئے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں اور پھر تباہی و بربادی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے علاوہ دوسروں سے ڈرتا ہے، اللہ پاک اُسے ہر چیز سے خوفزدہ کردیتا ہے۔(کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 151، حدیث:5915)خوفِ خدا سے دل نرم ہو جاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور خوف خدا سے نکلے ہوئے آنسو ایسے انمول ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ! نبی اکرم، تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان معظم ہے: جس مومن بندے کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کی وجہ سے آنسو نکلیں اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ جائیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، الزہد، باب الحزن والبکاء ،4/ 467، حدیث:4197)سرکار دو عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہو گا، حتٰی کہ دودھ تھن میں واپس چلا جائے۔(الترغیب والترھیب، جلد 2، کتاب الجہاد، صفحہ 271)حضرت معمر بن المنذر رحمۃُ اللہِ علیہ جب خوفِ خدا سے روتے تو اپنی داڑھی اور چہرے پر آنسو مَلا کرتے اور کہتے:میں نے سنا ہے کہ جسم کے جس حصّے پر آنسوؤں کا پانی لگ جائے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔(مکاشفۃ القلوب مترجم، ص48، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جو اس کے خوف سے بہتا ہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اللہ پاک کے راستے میں بہایا جاتا ہے۔(المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 13، صفحہ 201)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 502، حدیث: 842) زندگی برف کی طرح پگھلتی جارہی ہے، ہمیں بھی غور کر لینا چاہئے کہ کیا کبھی ہم پر بھی خوفِ خدا کا غلبہ ہوا؟ ہماری بھی آنکھیں کبھی اشکبار ہوئیں؟ ہمیں بھی کبھی اپنے گناہوں پر رونا آیا؟ افسوس! ہمارا لمحہ لمحہ غفلت میں بسر ہوتا جا رہا ہے، گناہون کی کثرت کے باعث دل سخت ہو گئے اور اب ہمیں رونا بھی نہیں آتا۔اللہ پاک ہم سب کو خوفِ خدا سے سرشار فرمائے، خوفِ خدا کی بدولت نیکیوں کی رغبت اور اعمالِ صالحہ پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کہ ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔ربّ کریم نے خود قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس صفتِ عظیمہ کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ پارہ4، سورۂ نساء کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا:ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔

اللہ پاک کا خوف رکھنا، اس کی واجب کردہ اشیاء پر عمل کرنا، اس کی منہیات سے منع ہونا اور اس کے خوف سے رونا، ہر بھلائی کی اصل ہے کہ خوفِ خدا کے سبب رونا بخشش کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا نجات کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا بلا حساب جنت میں داخلے کا سبب ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا جہنم سے آزادی کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، غرض یہ کہ خوفِ خدا کے سبب رونے کے بے شمار فضائل ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی پسندیدہ نہیں، جو آنکھ سے اس کے خوف کی وجہ سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے۔اور حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوفِ خدا سے آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کروں، اس لئے کہ جو اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسو کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔

میرے اشک بہتے رہیں کاش ٹپ ٹپ تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی


خوف کی تعریف :حضراتِ عُلمائےکرام فرماتے ہیں :نا پسندیدہ خَیال آنے پر دِل میں پیدا ہونے والے لرزے کو خوف کہتے ہیں۔ خشیّت بھی اِسی کی مِثل ہے۔ لیکن خشیت ایک طرح کی ہیبت اور عَظَمت کا تقاضا کرتی ہے۔خوف کی ضِد جُرأت ہے(لیکن کبھی یہ امن کے مُقابلے میں بھی بولا جاتاہے) کیونکہ بے خوف ہی اللہ پاک پر جُرأت کرتاہے اور حقیقت یہ ہے کہ جُرأت ہی خوف کی ضِد ہے۔(مِنہاجُ العابدین ،ص315314،) خوفِ خُدا کے فضائل: جب خوف میں شِدّت پیدا ہو جائےتو آنکھوں سے آنسُو کا جاری ہونا ایک فِطری امر ہے۔ خوفِ خُدا میں رونا مؤمن کا اِنتہائی عُمدہ و اعلیٰ وصف ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام، صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان اور اولیائے عظام کی مُبارک زندگیوں کا ایک نُمایاں پہلو خوفِ خُدا میں رونا ہے۔ یہ مُتّقین کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ قُرآن کریم میں بہت سے مقامات پر خوفِ خُدا کی ترغیب دِلائی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خوفِ خُدا کے فضائل کا بھی تذکرہ ہے۔ جیسا کہ اِرشادِ باری ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتٰنِترجمہ :اور جو اپنے ربّ کے حُضُور کھڑے ہونے سے ڈرے اُس کے لیے دو جنّتیں ہیں۔(پ 27،رحمن: 46)اِس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جِسے دُنیا میں قِیامت کے دِن اپنے ربّ کریم کے حُضُور حِساب کی جگہ میں حِساب کے لیے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گُنا ہوں کو چھوڑ دے اور فرائض کی بجا آوری کرے تو اُس کے لیے آخِرت میں دو جنّتیں ہیں۔یہاں دو جنّتوں سے مُراد : (1)جنّتِ عَدْن(2)جنّتِ نعیم ہے۔اور دو جنّتیں مِلنے کی وُجوہات مُفسّرین نے مُختلف بیان فرمائی ہیں:(1)ایک جنّت اللہ پاک سے ڈرنے کا صِلہ ہے اور ایک نفسانی خواہِشات ترک کرنے کا صِلہ ہے۔ (2)ایک جنّت اُس کے دُرُست عقیدہ رکھنے کا صِلہ ہے اور ایک جنّت اُس کے نیک اعمال کا صِلہ ہے۔ (3)ایک جنّت اُس کے فرمانبرداری کرنے کا صِلہ ہے اور ایک جنّت گُناہ چھوڑ دینے کا صِلہ ہے۔ (4)ایک جنّت ثواب کے طور پر ملے گی اور ایک جنّت اللہ پاک کے فضل کے طور پر مِلے گی۔(5)ایک جنّت اُس کی رِہائش کے لیے ہو گی اور دوسری جنّت اُس کی بیویوں کی رہائش کےلیے ہو گی۔ (تفسیر صِراطُ الجِنان،جِلد نمبر:9،ص653652،) (1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم :جِس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسُو نِکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو اُس کے چہرے کے ظاہری حِصّے کو پہنچیں تو اللہ پاک اُسے جہنّم پر حرام کر دیتا ہے۔ (نیکی کی دعوت،ص273 (2)فرمانِ مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، اللہ پاک اُس کی بخشش فرما دے گا۔ (نیکی کی دعوت،ص277 بُزرگانِ دین کے اقوال :(1)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہما نے فرمایا :اللہ پاک کے خوف سے آنسُو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صَدَقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (نیکی کی دعوت،ص284 (2)حضرت کعبُ الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :خوفِ خدا سے آنسُو بہانا مُجھے اپنے وزْن کے برابر سونا صَدَقہ کرنے سے بھی زِیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئےاور اُس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی زمین پر گِر جائے تو آگ اُس(رونے والے) کو نہ چھُوئےگی۔ (نیکی کی دعوت،ص284 مندرجہ بالا تمام مواد سے خوفِ خُدا میں آنسُو بہانے کے فضائل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یقیناً یہ ایک عظیمُ الشان نیکی ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی خوفِ خُدا و عِشقِ مُصطفیٰ میں رونا نصیب کرے۔ آمین بجاہ خاتم النَّبِيِّين صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

رونے والی آنکھیں مانگو، رونا سب کاکام نہیں ذکرِ مَحبت عام ہے لیکن سوزِمحبّت عام نہیں


خوف خدا سے رونے کی برکت:جس شخص کی آنکھوں میں خوف خدا کے سبب آنسو جاری ہو جائیں اور اس کے قطرے زمین پر گریں تو جہنم کی آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔(ارشاد حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ)حضرت علی بن بکار بصری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث اور زہد و تقویٰ سے متصف بزرگ تھے، آپ کے دل پر خوفِ خدا کا اتنا غلبہ تھا کہ دن رات روتے رہتے، حتٰی کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔خوف خدا میں رونے کے فضائل:امیر اہلسنت دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ کی مایہ ناز تصنیف نیکی دعوت سے رونے کے چند فضائل پیشِ خدمت ہیں:1۔فرمانِ مصطفی ہے:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا۔2۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔3۔فرمانِ مصطفی ہے:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔4۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہُ عنہُ فرماتے ہیں:جب تم میں سے کسی کو خوفِ خدا سے رونا آئے تو وہ آنسو کو کپڑے سے صاف نہ کرے، بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت میں ربِّ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔5۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر ہوتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی۔6۔حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے، جسے وہی طے کرسکتا ہے، جو بہت رونے والا ہے۔

جی چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے اللہ! مگر دل سے قساوت نہیں جاتی

اللہ پاک ہمیں اپنے خوف میں رونا نصیب فرمائے۔آمین


حضرت علامہ ابواللیث رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: ساتویں آسمان پر اللہ کے ایسے فرشتے ہیں کہ انہیں اللہ پاک نے جب سے پیدا کیا ہے، برابر سجدے میں ہیں اور اللہ پاک کے عذاب سے انتہائی خوفزدہ ہیں، قیامت کے دن جب وہ سجدہ سے سر اٹھائیں گے تو کہیں گے: سُبْحٰنَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ۔اے اللہ تو پاک ہے، ہم تیری کماحقہٗ عبادت نہیں کرسکے۔فرمانِ الٰہی ہے:یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۔ترجمہ کنزالایمان:اپنے اوپر اپنے ربّ کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں، جو انہیں حکم ہو۔(پ 14، :50)وہ فرشتے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا ہے، وہی کرتے ہیں اور ایک لمحہ بھی میری نافرمانی میں نہیں گزارتے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی بندہ خوفِ الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے ایسے جھڑجاتے ہیں، جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔(شعب الایمان،1/491، حدیث: 803 بتغیر)حکایت: ایک نوجوان عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا، وہ رات کے قافلے کے ساتھ باہر کے سفر پر روانہ ہو گئی، جو ان کو جب معلوم ہوا تو وہ بھی قافلے کے ساتھ چل پڑا، جب قافلہ جنگل میں پہنچا تو رات ہو گئی، رات کو انہوں نے وہیں پڑاؤ کیا، جب سب لوگ سو گئے تو وہ نوجوان چپکے سے اس عورت کے پاس پہنچا اور کہنے لگا :میں تجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور اسی لئے میں قافلے کے ساتھ ساتھ آ رہا ہوں، عورت بولی:جا کر دیکھو کوئی جاگ تو نہیں رہا ؟جوان نے فرطِ مسرت سے سارے قافلے کا چکر لگایا اور واپس آکر کہنے لگا : سب لوگ غافل پڑے سو رہے ہیں، عورت نے پوچھا:اللہ پاک کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ وہ بھی سو رہا ہے؟جوان بولا:اللہ پاک تو نہ کبھی سوتا ہے، نہ ہی اسے کبھی اُونگھ آتی ہے، تب عورت بولی: لوگ سو گئے تو کیا ہوا، اللہ پاک تو جاگ رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے، اس سے ڈرنا ہم پر فرض ہے، جوان نے جونہی یہ بات سُنی، خوف خدا سے لرز گیا اور بُرے ارادے سے تائب ہو کر گھر واپس چلا گیا، کہتے ہیں کہ جب وہ نوجوان مرا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: سناؤ کیا گزری؟جوان نے جواب دیا: میں نے اللہ پاک کے خوف سے ایک گناہ کو چھوڑا تھا، اللہ پاک نے اس کی سبب سے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا۔حضرت عمر رضی اللہُ عنہ جب قرآن مجید کی کوئی آیت سنتے تو خوف سے بے ہوش ہو جاتے، ایک دن ایک تنکا ہاتھ میں لے کر کہا: کاش! میں تنکا ہوتا، کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا، کاش! مجھے میری ماں نہ جنتی اور خوفِ خدا سے آپ اتنا رویا کرتے تھے کہ آپ کے چہرے پر آنسو ؤں کے بہنے کی وجہ سے دو سیاہ نشان پڑ گئے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص خوف خدا سے روتا ہے، وہ جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا، اسی طرح جیسے کہ دودھ دوبارہ اپنے تھنوں میں نہیں جاتا۔(ترمذی،3/236، حدیث: 1639)حدیث: شریف میں ہے:کوئی ایسا بندہ مؤمن نہیں، جس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر آنسو بہے اور اس کی گرمی اس کے چہرے پر پہنچے اور اسے کبھی جہنم کی آگ چھوئے۔حضرت محمد بن المنذر رحمۃُ اللہِ علیہ جب خوف خدا سے روتے تو اپنی داڑھی اور چہرے پر آنسو ملا کرتے اور کہتے: میں نے سنا ہے کہ وجود کے جس حصّے پر آنسو لگ جائیں گے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔

دقائق الاخبار میں ہے: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا، چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم ملے گا، اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا : اے ربّ کریم! تیرے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا تھا: جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے اور میں تیرے خوف سے رویا تھا، اللہ پاک کا دریائے رحمت جوش میں آئے گا اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچا لیا جائے گا، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام پکاریں گے، فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا۔


انسان کے دنیا میں آنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت ہے اور اللہ پاک کی عبادت سے غفلت وہی کرے گا جیسے اللہ پاک کا خوف نہ ہو ۔ خوف بہت بڑی نعمت ہے ۔کہ انسان اس کے ذریعے اپنے مقصد حیات کو پانے میں کامیاب ہتا ہے وہی گناہوں سے بچنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ۔ مثلا جب کسی کا بچہ گم ہوجائے تو اس کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ایسے ہی جب کسی ماں کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے ۔ تو اس ماں کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ تو حزن کھانا چھڑوادیتا ہے ۔ ایسے ہی اللہ پاک کاخوف گناہ چھڑوا دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تو بندہ جب اس حکم پر عمل کرتا ہے ۔ اپنے دل میں خوف خدا پیدا کرتا ہے تو خود بخود گناہوں سے بچتا چلا جاتا ہے ۔ اور جو اس کےحضور کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے ۔اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔ سورۂ رحمن ۔ اور اس کے برخلاف جو خوف خدا سے بے خوف ہو تو وہ اپنی زندگی بے کار فصول کاموں میں لگا دیتا ہے ۔ اپنی دنیا بھی اور آخرت بھی برباد کرتا ہے ۔ تو جب تک خوف خدا نہی ہوگا تو نیکیوں پر چلنا مشکل ہے ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عبادت کے راستے پر چلنا اس وقت تک ممکن نہی جب تک تم اپنے اندر خوف خدا اور امید رحمت کی صفات پیدا نہ کرلو ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:نفس امارہ برائی کا دلدادہ ہے ۔ یہ اس وقت تک گناہوں سے باز نہی آسکتا جب تک زبردست خوف خدا حاصل نہ ہوجائے۔ (منھاج العابیدین)خوف خدا ہی وہ صفت ہے جس سے نیکیاں کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ خوف خدا میں رونا بڑی سعادت ہے ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک نے فرمایا: ان لوگوں کو جہنم سے نکال دو جو ایک دفعہ مجھ سے ڈرے ہیں ۔ ترمذی شریف ص 2594خوف خدا میں رونے والا ہر گز جہنم میں نہی جائے گایہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس چلاجائے۔ ترمذی ،فصائل الجھاد،ص 415 حدیث: 1633مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے تھن سے نکلا دودھ تھن میں واپس نہی جاتا ایسے ہی خوف خدا سے رونے والے کاجہنم میں جانا ممکن نہی ۔خوف خدا میں رونا انبیاء کی سنت اور نیک لوگوں کی علامات ہے ۔ حضرت یحٰی علیہ السلام ۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے ساتھ روتے ۔ آپ اللہ پاک کے خوف سے مسلسل روتے یہاں تک کہ رخسار پر زخم ہوگئے۔ نیکی کی دعوت ص 274 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رونے کی گڑگڑاھٹ 1 میل کے فاصلے سے سنائی دیتی ۔تو جب انبیاء کرام کے خوف خدا کا یہ عالم ہے تو ہمیں کس قدر اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے ۔ البتہ جہاں اللہ پاک کاخوف بندہ کی آخرت سنوارتا ہے وہی اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے کہ اللہ پاک کا خوف رکھنے والا حرام سے بچتا ہے ۔ اللہ پاک کاخوف رکھنے والا سود سے بچتا اور دین کے احکام کو سینے سے لگاتا ہے ۔ تو خوف خدا میں رونے کی عادت پیدا کیجیے ۔ اور رب کی رضا حاصل کر کے آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کیجیے ۔خوفِ خدا کہتے کسے ہیں؟امِیراہلسنّت دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی خفیہ تدبیراس کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص26قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمادی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ پارہ5سورۂ نِساء آیت نمبر131۔سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہے۔خوفِ خدا، ص26سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہے:ایک رات رسولصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے: مجھے رخصت دوکہ میں رب کریم کی عبادت کرلوں ۔تو میں نے عرض کی: مجھے آپ کا رب کریم سے قریب ہونا اپنی خواہش سے زیادہ عزیز ہے۔تو آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور رونے لگے ،پھر وضو کرکے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو دوبارہ رونا شروع کردیا یہاں تک کے آپ چشمان مبارک سے نکلنے والے آنسو زمین تک جاپہنچے۔اتنے میں حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے تو آپ کو روتے دیکھ کر عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میری جان آپ پر قربان! آپ کیوں رورہے ہیں حالانکہ آپ کے سبب تو اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا:کیا میں شکر کزار بندا نہ بنوں؟(پھر فرمایا:) اے بلال!جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا سکتے ہیں۔ خوفِ خدا،ص424344قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائےگا۔اُسے اُس کا اعمال نامہ دیاجائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔پھر عرض کرے گا:یا اِلٰہی!میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں؟اللہ پاک ارشاد فرمائےگا:میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔پھر اللہ پاک کے حکم سے اس کے اعضا گواہی دیں گے ۔ہاں!ہم(حرام کی طرف)بڑھے تھے۔وہ بندہ یہ سُن کر حیران رہ جائےگا۔پھر جب اللہ پاک اس کے لئے جہنم میں جانے کا حکم فرمادے گا۔تواس شخص کی سیدھی آنکھ کا ایک بال ربّ کریم سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کرےگا اور اجازت ملنے پر عرض کرےگا:یااِلٰہی!کیا تونے نہیں فرمایاتھا کہ میرا جوبندہ اپنی آنکھ کے کسی بال کو میرے خوف میں بہائے جانے والے آنسوؤں میں ترکرے گا میں اس کی بخشش فرمادوں گا؟ اللہ پاک اِرشاد فرمائے گا! کیوں نہیں!تو وہ بال عرض کرےگا:میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گنہگار بندہ تیرے خوف سے رویا تھاجس سے میں بھیگ گیا تھا۔یہ سُن کر اللہ پاک اس بندے کو جنّت میں جانے کا حکم فرمادےگا۔خوفِ خدا،ص142دو احادیثِ طیبہ: (1) قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوگی مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوفِ خدا سے روئی ہوگی۔(2) اے لوگو!رویا کرو اور اگر نہ ہو سکے تو رونے کی کوشش کیا کرو کیونکہ جہنّم میں جہنمی روئیں گےیہاں تک کہ اُن کے آنسو ان کے چہروں پر ایسے بہیں گے گویا وہ نالیاں ہیں جب آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنے لگے گا اور آنکھیں زخمی ہوجائیں گی۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص1011حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دِینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔حضرت کعب الاحبار رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اُس ذات کی قسم! جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں اللہ پاک کے خوف سے روؤں حتٰی کہ میرے آنسو میرے رخساروں پر جاری ہوں تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں سونے کا ایک پہاڑ صدقہ کروں۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص11


خوفِ خدا کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(ماخوز من احیاء العلوم،ج40)آیت مبارکہ:وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ۔ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے،کہتے ہیں اے ربّ ہمارے،ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔(پ7،المائدہ:83)حدیث: مبارکہ: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے:آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں خوفِ خدا سے بہنا شروع کر دیں،یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پر جا گریں تو اس کو بروزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔حدیث: مبارکہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے:تمام نبیوں کے سرور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کے خوف سے روئے گا وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا،یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے اور راہِ خدا کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہ ہوں گے۔حدیث: مبارکہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!نجات کیا ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤں پر رؤ و۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو بہہ جائیں، اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کی رخسار پر پہنچ جائے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام فرما دے گا۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :سیّد المبلغین، رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین آنکھوں کے علاوہ بروزِ قیامت ہر آنکھ رو رہی ہوگی:1۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہے۔2۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے۔ 3۔وہ آنکھ جس سے خوفِ خدا کے سبب مکھی کے سَر کے برابر آنسو نکل آئے۔(جنت میں لے جانے والے اعمال)خوفِ خدا میں رونے پر صحابی کا قولِ مبارک:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وقتِ وفات قریب آیا تو کسی نے عرض کی:مجھے کچھ وصیت ارشاد فرمائیے۔ارشاد فرمایا:میں تمہیں اللہ پاک سے ڈر نے، اپنے گھر کو لازم پکڑنے،اپنی زبان کی حفاظت کرنے اور اپنی خطاؤں پر رونے کی وصیت کرتا ہوں۔

یا ربّ میں تیرے خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی شہنشاہِ مدینہ کی بنا دے

انبیائے کرام علیہم السلام کے خوفِ خدا سے رونے کے واقعات:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر گریہ و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گرگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی۔حضرت داؤد علیہ السلام کا خوفِ خدا :ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام لوگوں کو نصیحت کرنے اور ان میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان میں اس وقت چالیس ہزار لوگ موجود تھے، جن پر آپ کے پُراثر بیان کی وجہ سے ایسی رقّت طاری ہوئی کہ تیس ہزار لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت عمر کا خوفِ خدا سے رونا:حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔ایک حبشی کا خوف ِخدا :ایک حبشی نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!میرے گناہ بے شمار ہیں، کیا میری توبہ بارگاہِ الہٰی میں قبول ہوسکتی ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا:کیوں نہیں،اس نے عرض کی:کیا وہ مجھے گناہ کرتے ہوئے دیکھتا بھی رہا ہے؟ارشاد فرمایا:ہاں!وہ سب کچھ دیکھتا رہا ہے! یہ سُن کر حبشی نے چیخ ماری اور زمین پر گرتے ہی جاں بحق ہوگیا۔پیاری اسلامی بہنو!ہم نےخوفِ خدا میں رونے کے فضائل ، واقعات و فرامین پڑھے، اب ہم کچھ دیر غور کریں اوراپنا جائزہ لیں کہ ہمارے اندر کتنا خوفِ خدا ہے ؟ ہم خوفِ خدا میں کتنا روتی ہیں؟ اب تک ہم اپنی زندگی کی کتنی سانسیں غفلت میں گزار چکی؟ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! نجات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے(یعنی بلاضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔(شعب الایمان، ، ج1،ص492، حدیث:805)


خوف خدا میں رونا بھی بڑی نعمت ہے، ۔خوفِ خدا کسے کہتے ہیں؟یہ عظیم نعمت ہوتی کیا ہے؟ امیر اہلسنت بانی  دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب صفحہ26 پر فرماتے ہیں:اللہ پاک کی خفیہ تدبیر، اس کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت (پکڑ) اس کی طرف سے دئیے جانے والے عذابوں، اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوفزدہ رہنے کا نام ہے خوفِ خدا ہے، خوفِ خدا میں رونے کے فضائل :ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہمافرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(شعب الایمان، ص502/1) دو جنتوں کی بشارت: سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے ،اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن: 46)جہنم سے رہائی: سرورِعالم، شفیعِ معظم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔( شعب الایمان، باب الخوف من اللہ پاک، جلد 1، صفحہ 490، حدیث: 802)جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(خوف خدا، شعب الایمان، باب الخوف من اللہ ، جلد 1، صفحہ 491، حدیث: 803)بھلائی کی طرف راہ نمائی:حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔سبز موتیوں کا محل:حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے: اللہ پاک نے سبز موتی کا ایک محل پیدا فرمایا ہے، جس میں ستر ہزار گھر ہیں اور ہر گھر میں ستر ہزار کمرے ہیں، اس میں وہ داخل ہوگا، جس کے سامنے حرام پیش کیا جائے اور وہ محض اللہ پاک کے خوف سے چھوڑ دے۔( خوف خدا، احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 199)کامل عقل والا:مدنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے بڑھ کر کامل عقل والا وہ ہے، جو ربِّ کریم سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور جو تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اللہ پاک کے اَوامر و نواہی یعنی احکام میں زیادہ غور کرتا ہے۔( خوف خدا، احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 199) جنت میں داخلہ:حضرت یحی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہ کمزور انسان اگر جہنم سے اسی طرح ڈرے، جس طرح محتاجی سے ڈرتا ہے تو جنت میں داخل ہو۔( خوف خدا، احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 199)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں خوفِ خدا میں رونے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین


خوف خدا میں رونے کے بہت سے فضائل کتابوں میں ملتے ہیں۔خوفِ خدا کسے کہتے ہیں؟خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے آنے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔فطری طور پر انسان ہر اس چیز سے کی طرف مائل ہوتا ہے، جس سے اسے فائدہ نظر آئے، اسی تقاضے کے پیشِ نظر ہمیں چاہئے کہ فضائلِ خوفِ خدا قرآن کریم سے مطالعہ کریں، تاکہ رونے کی اہمیت ہم پر واضح ہو جائے، سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ سورۃ البقرہ میں آیا ہے:اِنَّ اللہ مَعَ المُتَّقِیْن۔اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ بننے کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری ہے:اِنَّ اللہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْن۔بے شک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔حدیث: مبارکہ میں بھی خوفِ خدا کے متعلق بہت سے فضائل وارد ہوتے ہیں، جیسا کہ منقول ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔اس کے علاوہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کی روایت میں ہے، فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا آپ کی اُمّت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟ تو فرمایا:ہاں، وہ جواپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔شعب الایمان کی روایت کا جز ہے: آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے روئے۔ کعب احبار رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: خوفِ خدا سے آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے مطابق سونا صدقہ کروں، اس لئے جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسو کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی

ایک حکایت میں ہے: حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ جو نہایت متقی و پرہیزگار تھے، ایک دن رات کو مصلے پر بیٹھے خوفِ خدا کے سبب آنسو بہا رہے تھے کہ آپ نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا رکھا اور آپ کی اُنگلیاں سرخ آنسو سے تَر ہیں، ایک شاگرد حاضر ہوا، اس نے عرض کی: میں آپ کو ربّ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ بتائیں،آپ کب سے خون کے آنسو رو رہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:اگر تو ربّ کا واسطہ نہ دیتا تو میں نہ بتاتا اور فرمایا:میں 60 سال سے خوفِ خدا سے خون کے آنسو سے رو رہا ہوں۔مرنے کے بعد ان کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا تو فرمایا:اللہ پاک نے اپنی شان کے لائق مجھ سے سلوک فرمایا ہے۔(حکایات الصالحین)