خوفِ خدا کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں
کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(ماخوز من احیاء العلوم،ج40)آیت مبارکہ:وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ
تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ۔ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف
اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان
گئے،کہتے ہیں اے ربّ ہمارے،ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔(پ7،المائدہ:83)حدیث: مبارکہ: حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے:آخری
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں خوفِ
خدا سے بہنا شروع کر دیں،یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پر جا گریں تو اس کو بروزِ قیامت
عذاب نہیں دیا جائے گا۔حدیث: مبارکہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے:تمام
نبیوں کے سرور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کے خوف سے روئے گا وہ جہنم میں داخل
نہیں ہوگا،یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے اور راہِ خدا کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہ ہوں گے۔حدیث:
مبارکہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!نجات کیا
ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤں پر رؤ و۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابنِ مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:سرکار
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک
کے خوف سے آنسو بہہ جائیں، اگرچہ مکھی کے سر
کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کی رخسار پر
پہنچ جائے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام فرما دے گا۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے :سیّد
المبلغین، رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین
آنکھوں کے علاوہ بروزِ قیامت ہر آنکھ رو رہی ہوگی:1۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی
حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہے۔2۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے۔ 3۔وہ
آنکھ جس سے خوفِ خدا کے سبب مکھی کے سَر کے برابر آنسو نکل آئے۔(جنت میں لے جانے والے اعمال)خوفِ خدا میں رونے پر صحابی کا قولِ مبارک:حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کا وقتِ وفات قریب آیا تو کسی نے عرض کی:مجھے کچھ وصیت
ارشاد فرمائیے۔ارشاد فرمایا:میں تمہیں اللہ پاک سے ڈر نے، اپنے گھر کو لازم پکڑنے،اپنی
زبان کی حفاظت کرنے اور اپنی خطاؤں پر رونے کی وصیت کرتا ہوں۔
یا ربّ میں تیرے
خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی
شہنشاہِ مدینہ کی بنا دے
انبیائے کرام علیہم
السلام کے خوفِ خدا سے رونے کے واقعات:حضرت ابو درداء رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر گریہ
و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گرگڑاہٹ کی آواز
سنائی دیتی۔حضرت داؤد علیہ السلام کا خوفِ خدا :ایک دن حضرت داؤد علیہ
السلام لوگوں کو نصیحت
کرنے اور ان میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان
میں اس وقت چالیس ہزار لوگ موجود تھے، جن پر آپ کے پُراثر بیان کی وجہ سے ایسی رقّت
طاری ہوئی کہ تیس ہزار لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت عمر
کا خوفِ خدا سے رونا:حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے پیچھے نماز
پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔ایک حبشی کا خوف ِخدا
:ایک حبشی نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی
بارگاہ میں عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم!میرے
گناہ بے شمار ہیں، کیا میری توبہ بارگاہِ الہٰی میں قبول ہوسکتی ہے؟آپ نے ارشاد
فرمایا:کیوں نہیں،اس نے عرض کی:کیا وہ مجھے گناہ کرتے ہوئے دیکھتا بھی رہا ہے؟ارشاد
فرمایا:ہاں!وہ سب کچھ دیکھتا رہا ہے! یہ سُن کر حبشی نے چیخ ماری اور زمین پر گرتے
ہی جاں بحق ہوگیا۔پیاری اسلامی بہنو!ہم نےخوفِ خدا میں رونے کے فضائل ، واقعات و
فرامین پڑھے، اب ہم کچھ دیر غور کریں اوراپنا جائزہ لیں کہ ہمارے اندر کتنا خوفِ
خدا ہے ؟ ہم خوفِ خدا میں کتنا روتی ہیں؟ اب تک ہم اپنی زندگی کی کتنی سانسیں غفلت میں گزار چکی؟ حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! نجات کیا
ہے؟ ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے(یعنی بلاضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔(شعب الایمان، ، ج1،ص492،
حدیث:805)