مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کہ ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع
کے سبب پیدا ہو، جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی،
اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ
میں مبتلا ہوجائے۔ربّ کریم نے خود قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس صفتِ عظیمہ کو
اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ
پارہ4، سورۂ نساء کی آیت نمبر 1 میں
ارشاد فرمایا:ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔
اللہ پاک کا خوف رکھنا، اس
کی واجب کردہ اشیاء پر عمل کرنا، اس کی
منہیات سے منع ہونا اور اس کے خوف سے رونا، ہر بھلائی کی اصل ہے کہ خوفِ خدا کے سبب رونا بخشش کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا نجات کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا بلا حساب جنت میں داخلے
کا سبب ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا جہنم سے آزادی کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا
اللہ پاک
کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، غرض
یہ کہ خوفِ خدا کے سبب رونے کے بے شمار فضائل ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اللہ
پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی پسندیدہ نہیں، جو آنکھ سے اس کے خوف کی وجہ سے بہے یا خون کا
وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے۔اور حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوفِ خدا سے آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ
محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کروں، اس لئے کہ جو اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس
کے آنسو کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔
میرے اشک بہتے
رہیں کاش ٹپ ٹپ تیرے
خوف سے یا خدا یا الٰہی