حضرت علامہ ابواللیث رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: ساتویں آسمان پر اللہ کے ایسے فرشتے ہیں کہ انہیں اللہ پاک نے جب سے پیدا کیا ہے، برابر سجدے میں ہیں اور اللہ پاک کے عذاب سے انتہائی خوفزدہ ہیں، قیامت کے دن جب وہ سجدہ سے سر اٹھائیں گے تو کہیں گے: سُبْحٰنَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ۔اے اللہ تو پاک ہے، ہم تیری کماحقہٗ عبادت نہیں کرسکے۔فرمانِ الٰہی ہے:یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۔ترجمہ کنزالایمان:اپنے اوپر اپنے ربّ کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں، جو انہیں حکم ہو۔(پ 14، :50)وہ فرشتے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا ہے، وہی کرتے ہیں اور ایک لمحہ بھی میری نافرمانی میں نہیں گزارتے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی بندہ خوفِ الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے ایسے جھڑجاتے ہیں، جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔(شعب الایمان،1/491، حدیث: 803 بتغیر)حکایت: ایک نوجوان عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا، وہ رات کے قافلے کے ساتھ باہر کے سفر پر روانہ ہو گئی، جو ان کو جب معلوم ہوا تو وہ بھی قافلے کے ساتھ چل پڑا، جب قافلہ جنگل میں پہنچا تو رات ہو گئی، رات کو انہوں نے وہیں پڑاؤ کیا، جب سب لوگ سو گئے تو وہ نوجوان چپکے سے اس عورت کے پاس پہنچا اور کہنے لگا :میں تجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور اسی لئے میں قافلے کے ساتھ ساتھ آ رہا ہوں، عورت بولی:جا کر دیکھو کوئی جاگ تو نہیں رہا ؟جوان نے فرطِ مسرت سے سارے قافلے کا چکر لگایا اور واپس آکر کہنے لگا : سب لوگ غافل پڑے سو رہے ہیں، عورت نے پوچھا:اللہ پاک کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ وہ بھی سو رہا ہے؟جوان بولا:اللہ پاک تو نہ کبھی سوتا ہے، نہ ہی اسے کبھی اُونگھ آتی ہے، تب عورت بولی: لوگ سو گئے تو کیا ہوا، اللہ پاک تو جاگ رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے، اس سے ڈرنا ہم پر فرض ہے، جوان نے جونہی یہ بات سُنی، خوف خدا سے لرز گیا اور بُرے ارادے سے تائب ہو کر گھر واپس چلا گیا، کہتے ہیں کہ جب وہ نوجوان مرا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: سناؤ کیا گزری؟جوان نے جواب دیا: میں نے اللہ پاک کے خوف سے ایک گناہ کو چھوڑا تھا، اللہ پاک نے اس کی سبب سے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا۔حضرت عمر رضی اللہُ عنہ جب قرآن مجید کی کوئی آیت سنتے تو خوف سے بے ہوش ہو جاتے، ایک دن ایک تنکا ہاتھ میں لے کر کہا: کاش! میں تنکا ہوتا، کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا، کاش! مجھے میری ماں نہ جنتی اور خوفِ خدا سے آپ اتنا رویا کرتے تھے کہ آپ کے چہرے پر آنسو ؤں کے بہنے کی وجہ سے دو سیاہ نشان پڑ گئے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص خوف خدا سے روتا ہے، وہ جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا، اسی طرح جیسے کہ دودھ دوبارہ اپنے تھنوں میں نہیں جاتا۔(ترمذی،3/236، حدیث: 1639)حدیث: شریف میں ہے:کوئی ایسا بندہ مؤمن نہیں، جس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر آنسو بہے اور اس کی گرمی اس کے چہرے پر پہنچے اور اسے کبھی جہنم کی آگ چھوئے۔حضرت محمد بن المنذر رحمۃُ اللہِ علیہ جب خوف خدا سے روتے تو اپنی داڑھی اور چہرے پر آنسو ملا کرتے اور کہتے: میں نے سنا ہے کہ وجود کے جس حصّے پر آنسو لگ جائیں گے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔

دقائق الاخبار میں ہے: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا، چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم ملے گا، اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا : اے ربّ کریم! تیرے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا تھا: جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے اور میں تیرے خوف سے رویا تھا، اللہ پاک کا دریائے رحمت جوش میں آئے گا اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچا لیا جائے گا، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام پکاریں گے، فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا۔