انسان کے دنیا
میں آنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت ہے اور اللہ پاک کی عبادت سے غفلت وہی کرے گا جیسے اللہ پاک
کا خوف نہ ہو ۔ خوف بہت بڑی نعمت ہے ۔کہ انسان اس کے ذریعے اپنے مقصد حیات کو پانے
میں کامیاب ہتا ہے وہی گناہوں سے بچنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ۔ مثلا جب کسی کا
بچہ گم ہوجائے تو اس کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ایسے ہی جب کسی ماں کا بیٹا فوت
ہوجاتا ہے ۔ تو اس ماں کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ تو حزن کھانا چھڑوادیتا ہے ۔
ایسے ہی اللہ
پاک کاخوف گناہ چھڑوا دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : اے ایمان والوں اللہ سے
ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تو بندہ جب اس حکم پر عمل کرتا ہے ۔ اپنے دل میں
خوف خدا پیدا کرتا ہے تو خود بخود گناہوں سے بچتا چلا جاتا ہے ۔ اور جو اس کےحضور
کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے ۔اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔ سورۂ رحمن ۔ اور اس کے برخلاف جو خوف خدا سے بے خوف ہو تو وہ اپنی زندگی
بے کار فصول کاموں میں لگا دیتا ہے ۔ اپنی دنیا بھی اور آخرت بھی برباد کرتا ہے ۔
تو جب تک خوف خدا نہی ہوگا تو نیکیوں پر چلنا مشکل ہے ۔ امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: عبادت کے راستے پر چلنا اس وقت تک
ممکن نہی جب تک تم اپنے اندر خوف خدا اور امید رحمت کی صفات پیدا نہ کرلو ۔ امام
غزالی رحمۃ
اللہ علیہ نے مزید فرمایا:نفس امارہ برائی کا دلدادہ ہے ۔
یہ اس وقت تک گناہوں سے باز نہی آسکتا جب تک زبردست خوف خدا حاصل نہ ہوجائے۔ (منھاج العابیدین)خوف خدا
ہی وہ صفت ہے جس سے نیکیاں کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ خوف خدا میں
رونا بڑی سعادت ہے ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک نے فرمایا: ان لوگوں کو جہنم سے نکال
دو جو ایک دفعہ مجھ سے ڈرے ہیں ۔ ترمذی شریف ص
2594خوف خدا میں رونے والا ہر گز جہنم میں نہی جائے گایہاں تک
کہ دودھ تھن میں واپس چلاجائے۔ ترمذی ،فصائل
الجھاد،ص 415 حدیث: 1633مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے تھن سے نکلا دودھ تھن میں واپس نہی جاتا ایسے ہی خوف خدا سے
رونے والے کاجہنم میں جانا ممکن نہی ۔خوف
خدا میں رونا انبیاء کی سنت اور نیک لوگوں کی علامات ہے ۔ حضرت یحٰی علیہ
السلام ۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی
کے ڈھیلے ساتھ روتے ۔ آپ اللہ پاک کے خوف سے مسلسل روتے یہاں تک کہ رخسار پر
زخم ہوگئے۔ نیکی کی دعوت ص 274 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رونے کی گڑگڑاھٹ 1 میل کے فاصلے سے سنائی دیتی ۔تو جب انبیاء کرام کے خوف
خدا کا یہ عالم ہے تو ہمیں کس قدر اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے ۔ البتہ جہاں اللہ پاک کاخوف بندہ کی آخرت
سنوارتا ہے وہی اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے کہ اللہ پاک کا خوف رکھنے والا
حرام سے بچتا ہے ۔ اللہ پاک کاخوف رکھنے والا سود سے بچتا اور دین کے احکام کو سینے سے
لگاتا ہے ۔ تو خوف خدا میں رونے کی عادت پیدا کیجیے ۔ اور رب کی رضا حاصل کر کے
آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کیجیے ۔خوفِ خدا کہتے کسے ہیں؟امِیراہلسنّت دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی خفیہ تدبیراس کی طرف سے دیئے
جانے والے عذابوں اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ
رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔کفریہ کلمات کے
بارے میں سوال جواب، ص26قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ
کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمادی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے
اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ پارہ5سورۂ نِساء آیت نمبر131۔سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت
سنائی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے
ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہے۔خوفِ خدا، ص26سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہے:ایک رات رسولصلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور
فرمانے لگے: مجھے رخصت دوکہ میں رب کریم کی عبادت کرلوں ۔تو میں نے عرض کی: مجھے
آپ کا رب کریم سے قریب ہونا اپنی خواہش سے زیادہ عزیز ہے۔تو آپصلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر کے ایک کونے میں کھڑے
ہوگئے اور رونے لگے ،پھر وضو کرکے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو دوبارہ رونا شروع
کردیا یہاں تک کے آپ چشمان مبارک سے نکلنے والے آنسو زمین تک جاپہنچے۔اتنے میں
حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے تو آپ کو روتے دیکھ کر عرض کی :یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میری جان آپ پر قربان! آپ
کیوں رورہے ہیں حالانکہ آپ کے سبب تو اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں؟ تو ارشاد
فرمایا:کیا میں شکر کزار بندا نہ بنوں؟(پھر
فرمایا:) اے بلال!جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا سکتے ہیں۔ خوفِ خدا،ص424344قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا
جائےگا۔اُسے اُس کا اعمال نامہ دیاجائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔پھر عرض
کرے گا:یا اِلٰہی!میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں؟اللہ پاک ارشاد فرمائےگا:میرے
پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔پھر اللہ پاک کے حکم سے اس کے اعضا گواہی دیں گے ۔ہاں!ہم(حرام کی طرف)بڑھے تھے۔وہ بندہ
یہ سُن کر حیران رہ جائےگا۔پھر جب اللہ پاک اس کے لئے جہنم میں جانے کا حکم
فرمادے گا۔تواس شخص کی سیدھی آنکھ کا ایک بال ربّ کریم سے کچھ عرض کرنے کی اجازت
طلب کرےگا اور اجازت ملنے پر عرض کرےگا:یااِلٰہی!کیا تونے نہیں فرمایاتھا کہ میرا
جوبندہ اپنی آنکھ کے کسی بال کو میرے خوف میں بہائے جانے والے آنسوؤں میں ترکرے گا
میں اس کی بخشش فرمادوں گا؟ اللہ پاک اِرشاد فرمائے گا! کیوں نہیں!تو وہ بال عرض
کرےگا:میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گنہگار بندہ تیرے خوف سے رویا تھاجس سے میں
بھیگ گیا تھا۔یہ سُن کر اللہ پاک اس بندے کو جنّت میں جانے کا حکم فرمادےگا۔خوفِ خدا،ص142دو احادیثِ طیبہ: (1) قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوگی
مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوفِ خدا سے روئی ہوگی۔(2)
اے لوگو!رویا کرو اور اگر نہ ہو سکے تو رونے کی کوشش کیا کرو کیونکہ جہنّم میں
جہنمی روئیں گےیہاں تک کہ اُن کے آنسو ان کے چہروں پر ایسے بہیں گے گویا وہ نالیاں
ہیں جب آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنے لگے گا اور آنکھیں زخمی ہوجائیں گی۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص1011حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے
نزدیک ایک ہزار دِینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔حضرت کعب الاحبار رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اُس ذات کی قسم! جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان
ہے۔ اگر میں اللہ پاک کے خوف سے روؤں حتٰی کہ میرے آنسو میرے رخساروں پر جاری ہوں
تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں سونے کا ایک پہاڑ صدقہ کروں۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص11