خوفِ خدا ہوتا
کیا ہے؟خوفِ خدا سے مراد ہے کہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر،اس کی بے نیازی،اس کی ناراضی،اس
کی گرفت (پکڑ)،اس کی طرف سے
دیئے جانے والے عذابوں،اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے
خوف زدہ رہنا۔خوفِ خدا کی فضیلت:کسی چیز کی فضیلت کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ بندے کو
کس قدر اللہ
پاک سے ملاقات کی سعادت کے قریب کرتی ہے، بندے کا سب سے بڑا مطلوب سعادت مندی ہے اور سب سے بڑی سعادت مندی اللہ پاک
کا قُرب ہے، جو اس کی معرفت سے حاصل ہوتا
ہے اور معرفتِ الٰہی اس کے جَلال اور قدرت میں غوروفکر کرتے رہنے سے حاصل ہوتی
ہے، یہ دل سے دنیا کی محبت کا قلع قمع
کرنے سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا خواہشاتِ
دنیا کا خاتمہ خوفِ خدا کی آگ سے ہی ممکن ہے، گویا کہ خوفِ باری سب سے بڑی سعادت مندی ہے ۔چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے:خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ
مُؤمِنِیْن۔ترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ 4 ،ال
عمران :175)خوفِ خدا کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث: میں مذکور ہیں اور خوفِ خدا اولیائے کرام کی سب سے بڑی صفت ہے
۔فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس بندہ مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کے سبب مکھی
کے پَر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو
حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، حدیث:4197)خوف سے بہنے والے آنسو:اللہ پاک کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے
قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرےسے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں ۔(الزھدلابن المبارک،حدیث: 672)حضرت کعب الاحبار رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس
ذات پاک کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اللہ پاک کے خوف سے روؤں، یہاں تک کہ میرے آنسو رُخساروں پر بہیں، یہ میرے نزدیک پہاڑکے برابر سونا
صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔جنت میں کون داخل ہو گا؟اُمّ المؤمنین سیدتنا عائشہ
صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:کیا آپ کی اُمّت میں کوئی
ایسا شخص بھی ہے، جو بلا حساب جنت میں
داخل ہو گا؟ارشاد فرمایا: ہاں! وہ جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔چنانچہ ارشادَ
باری ہے:وَلِمَنْ
خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتٰنِ۔ ترجمۂ
کنزالایمان: اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، الرحمٰن:46)خلیفہ
ثانی رضی اللہُ عنہ کا خوفِ خدا :کثرت سے رونے کے سبب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی
اللہُ عنہ کے چہرہ مبارک پر دو سیاہ لکیریں بن گئی تھیں، ایک روز آپ رضی
اللہُ عنہ نے سورۂ تکویر کی تلاوت شروع فرمائی اور جب اس آیت مبارکہ
پر پہنچے:وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ترجمہ:اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں۔(پ 30،التکویر:10)تو بےہوش
ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔بلا شک خوفِ خدا اس کے محبوب بندوں کی صفت ہے، تاریخ دیکھی جائے تو جتنے بھی اولیائے کرام
گزرے، سب خوفِ خدا والے تھے، ہاں ویسے یہ ضرور ہے کہ خوفِ خدا اسی میں ہوتا
ہے، جس میں عشقِ رسول ہو، کیونکہ پیارے آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے بڑھ کر خوفِ خدا والے
تھے اور سب سے بڑھ کر اللہ پاک کو محبوب ہیں، ہمیں بھی اللہ پاک کی پیاری بندی
بننے، پیارے آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ کو اپنانے کے
لئے گناہوں کو ترک کر کے خوفِ خدا کی صفت اپنانی چاہئے۔