حضور کی حضرت عائشہ سے محبت از ام ہانی،فیضان
عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر اور
دختر نیک اختر ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان ہے یہ چھ برس کی تھیں جب
حضور ﷺ نے اعلان نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح فرمایا
اور شوال 2 ہجری میں مدینہ منورہ کے اندر یہ کاشانہ نبوت میں داخل ہو گئیں اور
نوبرس تک حضور ﷺ کی صحبت سے سرفراز رہیں ازواج مطہرات میں یہی کنواری تھیں اور سب
سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین ہوئی تھیں حضور اقدس ﷺ کا ان کے بارے میں
ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ جب
میرے بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الہی اترتی رہتی
ہے۔ (بخاری، 2/552، حدیث: 3775)
یوں تو تمام
ازواج مطہرات ہی بہت زیادہ فضیلت کی حامل ہیں لیکن بی بی عائشہ کو دیگر ازواج
مطہرات پر بعض فضائل میں فوقیت حاصل ہے جو درج ذیل ہیں:
ابن سعد نے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا
کرتی تھیں کہ مجھے تمام ازواج مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری ازواج
مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں۔
1۔ حضور ﷺ نے
میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
2۔ میرے سوا
ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔
3۔ اللہ
تعالیٰ نے میری براءت اور پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔
4۔ نکاح سے
قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور کو دکھلا
دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔
5۔ میں اور
حضور ﷺ ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کر غسل کیا کرتے تھے۔ یہ شرف میرے سوا ازواج
مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔
6۔ حضور اقدس
ﷺ نماز تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی۔ امہات المومنین میں سے
کوئی بھی حضور ﷺ کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی۔
7۔ میں حضور ﷺ
کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ وہ
اعزاز خداوندی ہے جو میرے سوا حضور ﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔
8۔ وفات اقدس
کے وقت میں حضور ﷺ کو اپنی گود میں لیے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سر انور میرے
سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور ﷺ کا وصال ہوا۔
9۔ حضور ﷺ نے
میری باری کے دن وفات پائی۔
10۔ حضور اقدس
ﷺ کی قبر انور خاص میرے گھر میں بنی۔ (شرح الزرقانی، 3/ 323)
یاد رکھئے!
محبت کی بنیاد تین چیزیں ہوتی ہیں:جمال،کمال اور نوال یعنی احسان۔یعنی انسان جس سے
محبت کرتا ہے تو اس کے پیش نظر محبوب کی صورت کا حسن ہوتا ہے یا سیرت کا کمال و
اکمل ہونا یا وہ اس کے احسانات کی وجہ سے اسے محبوب جانتا ہے۔ سیدہ عائشہ محبوبۂ
محبوب خدا تھیں تو یقیناً اس کی وجوہات بھی ہوں گی اور اس مقام کو پانے میں آپ کا
اپنا کردار بھی ہوگا،لہٰذا جب اس حوالے سے سیدہ عائشہ کے بطور زوجہ معمولات کو
دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضور کی زیب و زینت اور پسند و ناپسند کا خوب
خیال رکھا کرتیں، مثلاً حضور کو خوشبو پسند تھی۔ (مراۃ المناجیح، 6/174) لہٰذا
حضور کی اس پسند کا بطور خاص اہتمام کرتیں اور حضور کو خوش کرنے کے لئے سب سے عمدہ
خوشبو حضور کو لگایا کرتیں۔(بخاری، 4/81، حدیث:5923)
مسلم شریف کی
روایت کے مطابق حضور جب اعتکاف کرتے تو مسجد میں رہتے ہوئے اپنا سر اپنے حجرے کی
طرف جھکا دیتے اور سیدہ عائشہ کنگھی کر دیتیں۔ (مسلم، ص 138، حدیث: 685) یوں ہی
ابو داود شریف کی روایت کے مطابق جب آپ حضور کے سر میں مانگ نکالنے کا ارادہ کرتیں
تو حضور کی مانگ(درمیان)سر سے چیرتیں اور پیشانی کے بال دو آنکھوں کے درمیان چھوڑ
دیتیں۔ (ابو داود،4/111،حدیث: 4189) مطلب یہ ہے کہ حضور کے بال شریف کے دو حصے
کرتیں، ایک حصّہ داہنی جانب دوسرا حصہ بائیں جانب اور پیشانی کے اوپر سے یہ مانگ
شروع کرتیں اور سر مبارک سے اسے گزارتیں، پوری مانگ بیچ سر میں ہوتی تھی۔(مراۃ
المناجیح،6/162)
الغرض ام
المومنین سیدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا بلا شبہ ایک بہترین بیوی تھیں،اپنے شوہر
کی پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھتیں اور اپنے شوہر کا ہر کام خوشی سے کرتیں، یہی
وجہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی بھی محبوب تھیں۔ چنانچہ اگر آپ بھی اپنے شوہر
کی محبوب بننا چاہتی ہیں تو یہ محض حسن و جمال کے جلووں سے نہیں بلکہ سیدہ عائشہ
کی سیرت پر عمل کر کے ہی ممکن ہو گا۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین