تاریخ اسلام کی وہ عظیم القدر ہستیاں جن کے علم کے نور سے زمانہ آج بھی پر نور ہے اور وہ اعلی اخلاق اور عمدہ اوصاف کی وجہ سے آج بھی اسی طرح زندہ وجاوید ہیں جیسے ظاہری حیات میں تھیں ان میں سے ایک مرتبہ رتبہ ذات ام المومنین، زوجہ سید المرسلین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔

یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر اور دختر نیک اختر ہیں۔

ازواج مطہرات میں سے یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین تھیں۔

حضور ﷺ کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب میرے بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الہی اترتی رہتی ہے۔ (بخاری، 2/552، حدیث: 3775)

امت کی اس عظیم ماں کو اللہ نے اس قدر کثیر فضائل سے نوازا ہے جس کا احاطہ و شمار ممکن نہیں، ایک یہی فضیلت کیا کم ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا سرکار عالی وقار، محبوب رب غفار ﷺ کی سب سے محبوب زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ مزید یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی گواہی خود رب کریم نے دی اور اس کے لیے قرآن کریم کی 18 آیات نازل فرمائیں، آپ کو حضرت جبریل امین علیہ السلام نے سلام کہا، آپ کے بستر اقدس میں رسول کریم، روف رحیم ﷺ پر وحی نازل ہوئی، آپ ہی کے حجرے میں رسول کریم ﷺ نے دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا، یہیں آپ ﷺ کا مزار اقدس بنا اور قیامت تک یہ مزار اقدس فرشتوں کے جھرمٹ میں رہے گا۔

بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں،اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔ (ترمذی، 5/470، حدیث: 3906)

مدینہ منورہ میں ہجرت کے کچھ عرصہ بعد تک تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدین کے پاس رہیں پھر ہجرت کے 7 ماہ بعد شوال المکرم میں رخصت ہو کر کا شانہ نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں داخل ہوئیں۔ (سیرت سید الانبیاء، حصہ: دوم، ص 250)

جب آپ کاشانہ اقدس میں آئیں اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف 9 برس تھی۔

چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے کھلونے بھی تھے اور آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ بھی آپ رضی اللہ عنہا کی دل جوئی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اکرم، شاہ بنی آدم ﷺ تشریف لاتے تو وی اندر چھپ جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے اور وہ پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔ (بخاری، 4/134، حدیث: 6130)

اسی طرح ایک روز آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان کی گڑیوں کو دیکھ کر استفسار فرمایا یہ کیا ہے؟ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میری گڑیاں ہیں۔ آپ ﷺنے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا، جس کے کپڑے کے دو پر تھے۔ فرمایا: یہ ان کے درمیان کیا نظر آتا ہے؟ عرض کی:گھوڑا۔ فرمایا:اس کے اوپر کیا ہے؟ عرض کی: دو پر۔ فرمایا:گھوڑے کے دو پر؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کیا آپ ﷺنے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے پروں والے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آپ ﷺنے اتنا تبسم فرمایا کہ میں نے دندان مبارک کی زیارت کر لی۔ (مدارج النبوة 2 /471)

بہرحال اس کم عمری کے عالم میں ہی آپ رضی اللہ عنہا نے امور خانہ داری کے گھر کے کام کاج سیکھنے اور نہایت خوش و اسلوبی سے انہیں انجام دیتی رہیں حتی کہ اپنے کپڑے خود سی لیتیں،خود ہی جو شریف کو پیس کرآٹا بناتیں۔ سرکار اقدس ﷺقربانی کے لیے جانور بھیجتے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے لیے رسیاں بٹتیں اور اس کے ساتھ رحمت عالم شاہ آدم و بنی آدم ﷺ کی خدمت میں بھی کوئی کمی نہ ہونے دیتیں۔

امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ مبارک حیات میں ہمارے لیے سیکھنے کے بے شمار مدنی پھول ہیں آپ حضور ﷺکی ازواج مطہرات میں سب سے کم عمر تھی مگر علم و فضل زہد و تقوی سخاوت اور عبادت ریاضت میں بہت نمایاں تھیں اس کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج نہایت و خوش اسلوبی سے انجام دیتیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ آرام پسند اور کام کاج سے جی چرانے والی نہ تھیں بلکہ ان کا ہر ہر منٹ اللہ کی عبادت حضور اقدس ﷺکی خدمت، دین سیکھنے اور گھریلو کام کاج کرنے میں گزرتا تھا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دن رات سرکار والا تبار مکے مدینے کے تاجدار ﷺ کے شربت دیدار سے اپنی آنکھوں کو سیراب کرتے ہوئے کاشانہ اقدس میں آرام و سکون کے ساتھ دن گزار رہی تھیں کہ وہ قیامت خیزسانحہ بپا ہونے کا وقت قریب آیا جب سرکار علی وقار محبوب پروردگارﷺ نے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا۔

وصال شریف سے چند روز قبل جب آپ ﷺ بستر علالت پر تشریف فرما ہوئے تو آپ ﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ بار بار دریافت فرماتے: کل میں کہاں ہوں گا؟ کل میں کہاں ہوں گا؟

امہات المومنین رضی اللہ عنہن جان گئیں کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنا چاہتے ہیں لہذا سبھی نے متفقہ طور پر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ حضور جہاں رہنا پسند فرماتے ہیں، رہیے! چنانچہ پھر آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنے لگے۔ (بخاری، 3/468، حدیث: 5217)

تقریبا آٹھ روز تک عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں مقیم رہنے کے بعد آپ ﷺ اس دنیا سے پردہ ظاہری فرمایا۔

وصال شریف کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو اپنے سینے پر سہارا دیا ہوا تھا۔ (سیرت الانبیاء، ص 597)

اور رسول خدا ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کے سوا اور کسی کو کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

رسول اکرم ﷺ کی حیات شریف کے آخری لمحات میں فرشتوں اور آپ رضی اللہ عنہا کے سوا حضور اقدس ﷺ کے پاس اور کوئی نہ تھا۔

اللہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ۔