محمد حسنین (درجہ رابعہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،پاکستان)
اسلام ایک ایسا
دین ہے جو صرف انسانوں ہی کو نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے ساتھ عدل، رحم، شفقت اور
احسان کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو”خلیفۃ اللہ فی الارض “بنایا اور دیگر مخلوقات پر اسے ایک طرح کی فوقیت عطا
فرمائی، لیکن اس فوقیت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جانوروں یا کسی بھی بے زبان مخلوق کے
ساتھ ظلم، زیادتی یا بدسلوکی کرے۔ قرآن و سنت نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بیان کیے بلکہ
جانوروں کے بھی حقوق واضح کیے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت مبارکہ سے ہمیں ان حقوق
کی پاسداری کا عملی نمونہ سکھایا۔
اسلام
میں جانوروں کے حقوق کی بنیاد: اسلام
میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی بنیاد رحمت اور عدل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو ”رحمۃ
للعالمین“ فرمایا گیا، اور اس عالم میں جانور بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت
سارے جہان کے لیے۔ (پ17، الانبیاء: 107)
لہٰذا آپ ﷺ کی
تعلیمات میں نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ حیوانات کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید
موجود ہے۔
(1)
جانوروں کو ایذا دینا گناہ کبیرہ: حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي
هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا ، حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لَا هِيَ
أَطْعَمَتْهَا، وَلَا سَقَتْهَا، إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا
تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (صحیح
البخاری: 2365) ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے بلی کو باندھ دیا،
نہ اسے کھلایا، نہ پلایا اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی،
یہاں تک کہ وہ مر گئی۔
اس حدیث سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ جانور کو بھوکا مار دینا اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس پر جہنم کا عذاب
واجب ہو جاتا ہے۔
(2)
جانوروں کو پانی پلانا باعث جنت: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بَيْنَمَا رَجُلٌ
يَمْشِي، اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَنَزَلَ بِئْرًا فَشَرِبَ مِنْهَا، ثُمَّ
خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ:
لَقَدْ بَلَغَ هَذَا مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي، فَمَلَأَ خُفَّهُ، ثُمَّ أَمْسَكَهُ
بِفِيهِ، حَتَّى رَقَى، فَسَقَى الْكَلْبَ ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ
(صحیح البخاری: 2363)
ایک شخص پیاس
کی شدت سے کنویں میں اترا، پانی پیا، واپس نکلا تو ایک کتا دیکھا جو مٹی چاٹ رہا
تھا، اس نے کہا: اس کو بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی مجھے لگی تھی۔ اس نے اپنا
موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا
اور اسے بخش دیا۔جانوروں پر رحم کرنا، چاہے وہ کتا جیسا ناپاک سمجھا جانے والا
جانور ہو، اللہ کی رضا اور بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
(3)
ظلم کرنا حرام ہے، چاہے جانور پر ہی کیوں نہ ہو: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ
نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ (صحیح مسلم: 1955)یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان
(نرمی، رحم) لازم کر دیا ہے۔مزید فرمایا: فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ،
وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ،
وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ جب تم قتل
کرو تو عمدگی سے کرو، جب تم ذبح کرو تو احسن طریقے سے کرو، ہر شخص اپنی چھری کو تیز
کرے اور ذبیحہ کو راحت دے۔
یہاں جانور کے ذبح کرنے میں بھی احسان یعنی نرمی
اور آسانی کی تاکید کی گئی، تاکہ وہ تکلیف میں نہ آئے۔
(4)
جانوروں پر سواری کے وقت نرمی: حضرت
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اونٹ کو دیکھا جو
بھوکا اور کمزور تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ ،
فَارْكَبُوهَا صَالِحَةً ، وَكُلُوهَا صَالِحَةً(سنن ابی داؤد: 2548)
ترجمہ : ان بے
زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ انہیں اچھی حالت میں سواری کے لیے استعمال
کرو اور جب کھانے کے قابل ہوں تب کھاؤ۔
جانور بیمار،
کمزور یا کمزور جسم والا ہو تو اسے نہ کھاؤ، نہ اس پر سوار ہو، بلکہ اس کے ساتھ
رحم کا سلوک کرو۔
(5)
جانوروں کو کسی کھیل تماشے یا نشانے کا ہدف بنانا حرام: رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا جو پرندے کو نشانے پر
رکھ کر تیر اندازی کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: لَعَنَ اللَّهُ مَنِ اتَّخَذَ
شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا (صحیح
مسلم: 1958) یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی جس نے کسی جاندار کو نشانے
کے طور پر استعمال کیا۔
تفریح یا کھیل
کے طور پر جانور کو تکلیف دینا، ہدف بنانا، یا اذیت دینا درست نہیں ہے ۔
اسلامی تعلیمات
کے چند اصول جو جانوروں کے حق میں ہیں:
1. جانور کو
بھوکا یا پیاسا نہ رکھو۔
2. جانور کو
باندھ کر یا قید کر کے نہ مارو۔
3. ذبح کرتے
وقت چھری تیز کرو اور دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کرو۔
4. جانور کو
بے جا بوجھ نہ اٹھاؤ۔
5. جانوروں پر
رحم، جنت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اقوالِ زریں:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر
فرات کے کنارے ایک بکری بھی پیاس سے مر گئی، تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ عمر سے اس کے
بارے میں پوچھے گا۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں: جو شخص جانوروں کے ساتھ
رحم کرتا ہے، وہ دل کا نرم اور فطرت کا پاکیزہ ہوتا ہے۔
اسلام نے
جانوروں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے ۔ ان کی بھوک، پیاس، تکلیف، آرام اور ان کے
جذبات تک کو اہمیت دی گئی ہے۔ اگرچہ جانور بول نہیں سکتے، لیکن ان پر ظلم کرنے
والا بول کر بھی معذور نہ ہوگا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں جانوروں کے ساتھ
حسن سلوک کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ ہمیں ان سے سبق لیتے ہوئے اپنے اردگرد موجود
جانوروں کے ساتھ نرمی، شفقت، اور انصاف کا سلوک اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ ممکن
ہے، کسی بے زبان جانور کے ساتھ حسن سلوک ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔
اللہ پاک عمل
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Dawateislami